ایں چہ بوالعجبی است؟

ملک میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں روزبروز اضافے سے عام آدمی کس طرح متاثر ہورہا ہے اس حوالے سے اس اجمال کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ اردو محاورے کے مطابق جس تن لاگے سو تن جائے اور یہاں ”جس تن” سے مراد ہر وہ عام آدمی ہے جو یہ اشیاء روز کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہے’ اس وقت گھی ‘ تیل ‘ دالوں ‘ چینی سے لے کر ہر قسم کے پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں بلند پروازی کی جومسابقت جاری ہے اس کے اثرات غریب لوگوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں ‘ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پیاز جیسی ضرورت کی سبزی جس طرح مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے اس کی مثال پہلے کبھی سامنے نہیں آئی ‘ اس وقت پیاز عام دکانوں یہاں تک کہ ہتھ ریڑھیوں پر بھی دو سو سے لے کر 240 روپے فی کلو کے حساب سے مل رہا ہے جبکہ حقیقت مبینہ طور پر یہ ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں زیر آب آنے سے ہر قسم کی سبزیاں ناپید اگر نہیں بھی ہوئیں تو ان کی پیداوار بری طرح متاثر ہوچکی ہے اور بہ امر مجبوری بنیادی ضرورت کی یہ اجناس جن میں ٹماٹر اور پیاز بھی شامل ہیں درآمد کرنے پر ہم مجبور ہو رہے ہیں، ٹماٹر اور پیاز اگر ہمسایہ ملک بھارت سے درآمد کرنے میں ماضی میں کوئی مشکل درپیش نہیں رہی ہے مگر بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے مابین روایتی دشمنی اس حوالے سے بھی آڑے آجاتی ہے’ دونوں جانب بعض دہشت گردانہ حملوں ‘ ایک دوسرے کے خلاف اسی روایتی دشمنی کی بناء پر سٹرٹیجک تعلقات کے علی الرغم عمومی تعلقات بھی کشیدہ ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ اہم ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کی تجارت بند ہونے سے اندرون ملک ادویات کی تیاری بھی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے ‘ اب جبکہ کچھ عرصے سے دونوں ملکوں میں تجارت پھر بند ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ٹماٹر اور پیاز ‘ آلو وغیرہ کی سستے داموں اورآسان درآمد بند ہو چکی ہے اور اس وقت یہ اشیائ( پہلے دوبئی کے راستے) اب افغانستان کی وساطت سے درآمد پر ہم مجبور ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق پیاز بھارت سے 25 روپے کلو خرید کر افغان تاجر اسے آگے پاکستانی تاجروں کو تو30 روپے کلو فراہم کر رہے ہیں مگر پاکستانی منافع خور آڑھتی اسے عوام کو 200 سے 240 روپے کے درمیان مہیا کرکے تجوریاں بھر رہے ہیں’ اگر یہ بات واقعی درست ہے تو نہ صرف سرکاری اداروں کی خاموشی پر سوالیہ نشان ثبت ہو رہے ہیں بلکہ عوام کے مفاد میں حکومت کو بھارت کے ساتھ پیاز ‘ ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی درآمد پر عائد پابندیاں نرم کرنے پر بھی غور کرنا چاہئے تاکہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کوریلیف مل سکے اور ماضی کی طرح یہ اشیاء آسانی سے پاکستانی مارکیٹوں میں دستیاب ہو سکیں۔ اگر عوام کے مفاد میں ایسا فیصلہ ضروری ہو تو اس سلسلے میں پابندیاں اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ