گندم کی قلت اور بجلی کی کمی دور کرنے کی حکمت عملی

گزشتہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے وسیع و عریض زرعی رقبے کے متاثر ہونے کے نتیجے میں زرعی اشیاء سبزیوں، دالوں اور خصوصاً گندم کی تباہی کے بعد ملک میں اجناس کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اگرچہ ماضی میں نہ صرف گندم بلکہ گنے کی اچھی فصلیں ہونے کے بعد مختلف مافیاز نہ صرف گندم بلکہ چینی کی ضرورت سے زیادہ پیداوار کے بیانئے بنا کر ان دونوں کو برآمد کرنے کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جایا کرتے تھے اور بعد میں خود اپنے ہی ملک میں ان اشیاء کی قلت پیدا ہو جاتی تھی تو برآمدی سودوں سے اربوں کا منافع کمانے والے ایک بار پھر آگے آ کر اس ” قلت” پر قابو پانے کیلئے درآمدی لائسنس حاصل کر کے دوبارہ تجوریاں بھر لیتے جبکہ یہی سستی پیداوار اگر برآمد نہ کی جاتی تو عوام پر ”مصنوعی” مہنگائی تھونپنے کی کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکتیں، لیکن” ملی بھگت” کی اس تگڑم بازی سے بنیادی ضرورت کی ان اشیاء کی مصنوعی قلت کے نتیجے میں گندم (آٹے) اور چینی کی قیمتیں مسلسل بڑھتی ہوئی آج عام غریب آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں جبکہ ملک میں گندم کے ذخائر کے حوالے سے بھی تشویشناک خبریں پھیل رہی ہیں، ممکن ہے ان خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو اور ابھی دستیاب ذخائر ملکی ضرورت کے آئندہ چند مہینوں کیلئے دستیاب ہوں تاہم اس میں قطعاً شک نہیں ہے کہ اگر بروقت مزید گندم درآمد کرنے کیلئے اقدام نہ اٹھائے جاتے تو گندم کی شدید کمی واقع ہو سکتی تھی، اس لئے وزیر اعظم نے یوکرین اور مشرقی یورپ کے دیگر ملکوں سے گندم درآمد کرنے کی منظوری دے کر اہم قدم اٹھایا ہے اور خبروں کے مطابق9کارگو شپ ساڑھے چار لاکھ ٹن گندم لے کر آئندہ ماہ گوادر کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہو جائیں گے، یوں ملک کے اندر گندم کے بحران کے امکان کو ختم کر دیا گیا ہے، وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق حکومت پاکستان نے آئندہ مارچ کے اواخر تک ساڑھے چار لاکھ ٹن گندم لے کر آنے والے9بحری جہازوں کو گوادر انٹرنیشنل پورٹ پر لنگرانداز کرایا جائے گا، وہ گندم پاسکو پنجاب کے گوداموں میں پہنچائی جائے گی، دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، گوادر شہر اور گوادر انٹرنیشنل پورٹ(بندرگاہ) کیلئے ایران سے100میگا واٹ بجلی کا پراجیکٹ مکمل کرا لیا ہے، این ٹی ڈی سی نے40میل لمبی لائن مکمل کر لی ہے جبکہ دو روز قبل100میگاواٹ بجلی ایران سے گوادر کے محولہ اہم اداروں اور عوام کو ملنا شروع ہو گئی ہے، جیسا کہ ابتدائی سطور میں گزارش کی جا چکی ہے کہ ملک میں گندم کی ممکنہ قلت سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے کیلئے وزیراعظم نے جو بروقت اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اس سے ملکی گندم ذخائر میں حوصلہ افزاء اضافہ ہو گا اور آنے والے دنوں میں گندم، آٹے، میدے، سوجی وغیرہ کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس سے یہ امکان بھی روشن ہو رہا ہے کہ گندم کی سپلائی بہتر ہونے سے آٹے وغیرہ کی قیمتیں بھی اعتدال میں رہیں گی اور مہنگائی میں ضرورت سے زیادہ اضافہ ہونے کے خدشات دم توڑ جائیں گے تاہم اس حوالے سے چھوٹے صوبوں کے ساتھ ماضی میں روا رکھی جانے والی زیادتی کے ختم ہونے کے امکانات اور خدشات ختم نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ تمام درآمدی گندم پنجاب میں موجود پا سکو کے گوداموں میں ذخیرہ کرنے کی جو خبریں سامنے آئی ہیں تو یہی وہ مسئلہ ہے جس نے چھوٹے صوبوں کے عوام میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، اور ماضی میں جس طرح پنجاب سے چھوٹے صوبوں کو گندم کی ترسیل پر حکومت پنجاب قدغنیں لگا کر ان صوبوں میں گندم،آٹے وغیرہ کا بحران پیدا کرانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے، اب پھر وہی خدشات پیدا ہو رہے ہیں، حالانکہ آئین کے تحت اشیائے خورد و نوش پر بین الصوبائی اور بین الاضلاعی ترسیل پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی لیکن صوبہ پنجاب کی ماضی کی حکومتیں اس حوالے سے آئین شکنی کی مرتکب ہوتی رہی ہیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ گندم، آٹے کی نقل و حمل پر پابندیاں عائد کرکے چھوٹے صوبوں کے عوام کے آئینی حقوق کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہی ہیں، اب تو صورتحال یہ ہے کہ ساڑھے چار لاکھ ٹن گندم صرف پنجاب کیلئے نہیں بلکہ پورے پاکستان کیلئے منگوائی جارہی ہے، اس لئے اس میں سے ہر صوبے کو اس کی ضرورت اور کوٹے کے مطابق گندم کی ابھی سے دینے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ڈائریکٹ ان صوبوں کو فراہمی ممکن بنائی جائے تاکہ بعد میں حکومت پنجاب ناجائز قدغنیں لگا کر چھوٹے صوبوں کے اندر گندم اور آٹے کا بحران پیدا نہ کر سکے، جبکہ گوادر سے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کیلئے بعد میں پنجاب سے گندم کی ترسیل پر اخراجات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے یعنی ایک بار گوادر سے پنجاب اور پھر پنجاب سے بلوچستان اور سندھ(کراچی) گندم لے جانے پر الٹے بانس بریلی کو جیسی صورتحال ہوگی اور عوام پر مہنگائی تھونپنے سے ان کی چیخیں نکلیں گی، جبکہ خیبر پختونخوا کو بھی یہی گندم پنجاب کے علاقوں سے گزرے بغیر باہر ہی باہر سے ٹرانسپورٹ کے کم اخراجات سے فراہم کی جا سکتی ہے اور پنجاب حکومت کے خلاف آئینی اقدامات سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے، اسی طرح گوادر کیلئے100میگاواٹ بجلی ایران سے حاصل کرنے سے متعلقہ تمام علاقوں کے عوام کیلئے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارا پانے یا اس میں بہت حد تک کمی سے سہولت ملے گی جس پر اظہار اطمینان کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے