”وہ آرہے ہیں وہ آرہے ہیں”

وطن عزیز میں ذرائع ابلا غ کی تاریخ اور کا رکر دگی کوئی دل کش نہیں پائی گئی ہے ، یو ں تو کہا جا تا ہے کہ ذرائع ابلا غ کے ذریعے رائے عامہ کو سنو ارنے میں مدد ملتی ہے لیکن دیکھاگیا ہے کہ ان ذرائع کو حکمرانو ں ، سیاست دانو ں اور سلطانوں نے مطلب پرستی اور مقصد براری کے لیے ہی کے لیے استعمال کیا ہے ، اس وقت دنیا میں برقی ذرائع ابلاغ جن انگریزی پر ستوں نے الیکٹرانک میڈیاکا نا م دے رکھا ہے ،سب سے زیادہ اثر انگیز ہے ، اسی اثرانگیزی کا تقاضا ہے کہ ذرائع ابلا غ جس نوع سے بھی متعلق ہو اس کو امین ہو نا چاہیے یعنی وہ عوام تک بنا کسی مطلب براری یا موقع پر ستی سچ سچ عوام تک پہنچادے ، مگر ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا، جو قومی خیا نت ہے ۔ یہ درست ہے کہ برسوں سے ان ذرائع کو اپنی مطلب پر ستی کے غرض سے سلطان العصر نے محبوس رکھا اور عوام تک سچ کو پہنچنے روکنے کی سعی بد کرتے رہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہا ں ریا ست کے ہر شعبے کو زد پڑی وہا ں خود ان کے مقاصد کو بھی نا قابل تلا فی دھچکا پہنچا ، بار بار کے تجر بے کے باوجو د کسی کو کان نہیں ہوئے اندھی تقلید پرآج بھی گامزن ہیں ۔ گزشتہ دور میں انھی ذرائع ابلا غ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ میا ں نو از شریف کے بیا نات ،تقاریر ، اور سیاست سے متعلق سرگرمیوں کو نشر نہ کریں اس حکومت کا مئوقف یہ تھا کہ جو شخص سزا یا فتہ ہے اس کے بیا نات صدر شرح کر نا یا پھیلانا کسی طور درست نہیں ۔ منطقی طور پربھی یہ ہنر منا سب کہلوائے کے زمرے میںکمزور ہے ، کیوں کہ زبان بندی کسی طور درست قرار نہیں پائی جا تی البتہ انسدادزبان دارزی کے لیے لازم ہے کہ زبان دراز کی جِیب کو لگا م دی جائے ، خیر جب نو از شریف کی زبان کو ذرائع ابلا غ میں تالا لگا دیا گیا تھا اس وقت بھی ان تما م عناصر نے اس امرکو ہدف تنقید بنایا تھاکہ اظہا ر خیال کو اس طر ح پابند صدر نشرح نہیں کیا جا سکتا ، ایسی بے جا پابندیوں کے باوجود اظہا ر خیال سلا خوںکی اوٹ میں مخفی نہ کیا جا سکا اب تو خیر سے سوشل میڈیا کا توڑ آگیا ہے ، پیمبرا نے اب عمر ان خان کی زبان کے ساتھ وہی حسن سلوک کیا ہے جو میاں نوازشریف کے ساتھ عمر ان خان کے دور میںکیا گیا تھا ۔ اس سے پیمبرا یا جن کی ہدایت پر قدم اٹھا یا گیا ہے کیا حاصل کر پائیں اس پابندی کے بعد عمر ان خان نے جو خطاب کیا اس کو ان کے حواری سوشل میڈیاکے دو چینل نے براہ راست نشر کیا ہے ، جس کو مجموعی طور پر تقریباًایک لا کھ افرا د نے براہ راست دیکھا اور سنا ، اگر برقی ذرائع ابلا غ پر نشر کر نے دیا جا تا تو اس سے کہیں زیا دہ افراد مستفید ہو جاتے ، اگردیکھا جائے تو عمر ان خان کے خطاب کی محرومیت کی سزا عوام کو ملی ہے جو مو صوف کی تقریر سے براہ راست مستفید نہ ہوسکے الیکڑانک میڈیا سے براہ ریاست نشر ہی نہیںکی گئی ، لیکن ایک دلچسپ واقع یہ بھی ہو ا کہ مسلم لیگ ن کی سنئیر نائب صدر مریم نو از نے فیصل آباد کے دھو بی گھا ٹ میںایک بڑے جلسے سے خطاب کیا ان کا یہ خطاب مختلف چینلز سے براہ راست دیکھایاجا
رہا تھا جبکہ اسی وقت ایک اور چینل جس کو پی ٹی آئی کا حواری چینل کہا جا تا ہے وہ عمران خان کی ریکاڈ شدہ تقریر نشر کر رہا تھا ، کیا ذہنی بلو غت رچ بس گئی ہے اپنے خطاب میں مریم نوازنے حسب معمول پی ٹی آئی پر دھوبی پٹڑا گھو مایا یہ نوعیت بھی دی کہ جلد میاںنواز شریف پاکستان واپسی کر رہے ہیں اور وہ اسی دھو بی گھاٹ میں آپ کے روبہ ہوںگے ۔ اسی جلسہ میں وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ نے بھی یہی ڈونڈی پیٹی کہ میا ں صاحب آرہے ،اور سیا ست کا سونامی لا رہے ہیں ، ”وہ آرہے ہیں ، وہ آرہے ہیں ” کا مسلم لیگ ن کے رہنما اتنی مرتبہ ورد کر چکے ہیں کہ یہ سن سن کرلو گوں کے کا ن پک گئے ہیں اب تو انھو ں نے منتظر سحرامید بھی چھو ڑ دی ہے ، میا ں صاحب آئیں نہ آئیں عوام کے لیے نہ برا نہ بھلا کیو ں کہ اقتصادیات کی جس طر ح دھجیاں بکھری ہوئی ہیں اس میں کسی پیوند کا ری کا امکا ن نظر نہیں آرہاہے ۔ البتہ عوامی حلقے یہ سوال اب بھی ضرور کر تے ہیں کہ میا ں صاحب کیو ں نہیں آرہے ہیںجبکہ ان کی پارٹی کی حکومت ہے اور ان کے بھائی حکمر ان بھی ہیں پھر کیا ہیچ ہے جو وہ غریب الوطنی اختیا ر کیے ہوئے ہیں یہ سوال عوامی حلقوں کا قابل توجہ ہے کیو ں کہ عمر ان خان کے دور میں وہ بستر مرگ پر اپنی اہلیہ کو چھو ڑ کر واپس آئے تھے اس تشریف آوری پر ان کو جیل بھیج دیا گیا تھا ۔ میا ں نو از شریف کے قریبی حلقوں کو اس سے ہٹ کر خیا ل ہے ان کا کہنا ہے کہ میا ں صاحب جیل جا نے سے گھبرا رہے نہیں اگر وہ جیل سے خوف زدہ ہوتے تو بستر مرگ پر اپنی اہلیہ کو زیست کی آخری ہچکیا ں لیتے چھو ڑ کر نہ آتے ، میا ں نواز شریف کا مئو قف ہے کہ وہ بے گناہ ہیں ۔ان کی حکومت ایک منظم سازش کے تحت ختم کیا گیا اور بغیر کسی قصور کے ان کو سز ا محض اس لیے دی گئی کے لاڈلے کو اقتدار میںلانا مقصود تھا ،چنانچہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ اب عدالتوں میں وہ اپنے آپ کو بے قصور ثابت کر تے پھیر یں ، نہ ان کی یہ ذمہ داری ہے اب جبکہ بات کھل گئی ہے سچائی سامنے آگئی ہے تو جو لوگ ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سامنے آکر اقرا ر کر یں کہ یہ کھیل انھو ں نے کھیلا اور وہ ہی اس کے ذمہ دار ہیں ، بات تو صحیح ہے جنہو ں نے گندسے ہاتھ رنگے وہ خود ہی اس کو صاف کر نے کی ذمہ داری پوری کریں ۔ مریم نو از کے اس اعلا ن سے کہ میا ں نو از شریف کا اسٹیج جلد فیصل آباد میں سجے گا اور وفاقی وزیر داخلہ کی تصدیقی تقریر کے بعد کیا یہ یقین کر لیا جائے کہ واقعی میاں صاحب آرہے ہیں ، مسلم لیگ ن کے ایک مر کزی رہنماء سعد رفیق ایک منجھے ہوئے سیا ست دان ہیں وہ سبھی امور پر گہر ی نظر رکھنے والو ں میں سے ہیں اور ، علا وہ ازیں سعد رفیق نے سابقہ آمرانہ دور کا جس بے جگری سے مقابلہ کیا وہ ان کا حوصلہ ہی تھا انھو ں نے بھی اپنا ایک پیغام ٹیو ٹ کیا ہے کہ شیر کی آمد ہے گویا سعد رفیق کے اس پیغام سے کافی حد تک یقین ہوچلا ہے کہ ایسا ہو نے والا ہے تاہم قمر جاوید باجوہ ، فیض حمید اور بابا رحمتے کے حالیہ انٹر ویو ز کے بعد کسی حد تک پر دہ کھسکا ہے ،حقیقت آشکا رہ ہوئی ہے کیامیاں صاحب کی آمد سے موجودہ بحران میںکوئی مثبت تبدیلی آنا ممکن ہے ۔”شایدہی ہو”۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم