مہنگائی کا ”بائیکاٹ”

رمضان المبارک کے دوران اشیائے صرف کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور انتظامیہ کی بے حسی کے خلاف پشاور کے شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گزشتہ روز سے پھلوں کابائیکاٹ شروع کردیا ہے ‘ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر”پھلوں کا بائیکاٹ کرو” ٹرینڈ چلاتے ہوئے شہریوں نے جومہم شروع کی ہے اس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں ‘ اور پھلوں کی خریداری میں پچاس فیصد کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ‘ پھلوں کی دکانیں سنسان اورریڑھیوں پرخریداروں کی بہت ہی کم تعداد دیکھی جارہی ہے اور صورتحال صرف”ونڈو شاپنگ” کی سی ہوچکی ہے ‘ یعنی گاہک ریٹ ضرور پوچھتے ہیں لیکن خریداروں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کا منفی پہلو یہ سامنے آ سکتا ہے کہ ریڑھی والوں کاروزگار متاثر ہونے سے ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا پھلوں کومہنگا کرنے کے اصل ذمہ دار آڑھتی ہوتے ہیں چند دن کے بائیکاٹ پران پراثرنہیں پڑنے والا بہرحال احساس دلانے کے لئے یہ اقدام اچھا ہے۔ رمضان کا مہینہ مسلمانوں کے لئے مقدس مہینہ ہے جس میں منافع خور اپنی ناجائز کمائی میں اضافہ کرکے غریب اور بے بس عوام کی دعائوں کے برعکس ان کی بد دعائیں سمیٹتے ہیں حالانکہ ہمارے تاجروں اور دکانداروں کے اس منفی رویئے کے علی ا لرغم جب ہم دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنے اپنے مذہبی تہواروں کے دنوں میں نہ صرف اشیائے خورد ونوش بلکہ ہر قسم کی اشیاء کے نرخ کم کرتے ہوئے ان پر کلیرنس سیل لگا لیتے ہیں تاکہ ان کے معاشروں کے غریب اور کم آمدنی والوں کو بھی زندگی کی ضروریات سستے داموں مہیا ہو سکیں ‘ یہاں تک کہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اس مبارک مہینے کے تقدس کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کے لئے سرکاری طور پر راشن کی قیمت میں رعایت دی جاتی ہے دیگر مسلمان ملکوں میں بھی ماہ رمضان میں ہر چیز پر رعایت دی جاتی ہے لیکن صرف وطن عزیز ہی غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس مقدس مہینے میں بھی ناجائز منافع خوری کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لئے کوئی اقدام سامنے نہیں آتا ‘ اور انتظامیہ جو مہنگائی روکنے کی ذمہ دار ہے وہ بھی آنکھیں بند کرکے عوام کے استحصال پر قدغنیں لگانے میں ناکام رہتی ہے ۔ اس لئے مجبور ہو کر اب عوام نے خود ہی پھلوں کا بائیکاٹ کرکے صورتحال کی اصلاح کی کوششیں شروع کردی ہیں ‘ امید ہے کہ عوام کی یہ مہم ضرور رنگ لائے گی اورپھلوں کی قیمتوں میںمناسب کمی آئے گی۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار