سوال ایک ہی تھا وہ بھی تھا کمال سوال

حفیظ جالندھری کے بقول نصف صدی کا قصہ بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے کہ انقلاب فرانس تو18ویںصدی میں برپا ہوا تھا ‘ یقیناً ٹرک’بس توایک طرف سائیکل’ موٹر سائیکل بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے اور بطور ٹرانسپورٹ بگھی چلتی تھی’ اب یہ بگھی والوں کی حیثیت کے مطابق ہوتی ہو گی کہ عام لوگ تو ایک یا دوگھوڑوں والی بگھیوں میںسفرکرتے تھے جبکہ اس دورکی اشرافیہ چارسے لے کر16 گھوڑوں والی بھگیاں استعمال کرتے تھے’ یوں ایک دو گھوڑوں والی بگھیوں کواس دور کی موٹر کار سے تشبیہ دی جائے تو گھوڑوں کی تعداد میں اضافے کے تناسب سے آپ پجیرو ‘ شیورلیٹ ‘ رولز رائیس اور پھر دیگر لگژری گاڑیوں کے ساتھ ان کا موازانہ کر سکتے ہیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ ٹرک ‘ ٹرالر ‘ یہ جو آج کل 24 پہیوں والے ٹرانسپورٹ بار برداری کے حوالے سے سینکڑوں ٹنوں کے حساب سے اشیائے صرف لاد کر سینکڑوں ہزاروں کلو میٹرز تک لاتے لے جاتے ہیں تو ایسی کوئی کوچ یا بگھی بہر طور موجود نہیں تھی اس لئے اس دور کی شہزادی یا ملکہ نے جب آٹے کی قلت پر احتجاج کرنے والوں کے جم غفیر کو اپنی سولہ گھوڑوں والی بگھی کی کھڑکی میں سے دیکھ کر ”روٹی کی جگہ کیک پیسٹری” کھانے کا مفت مشورہ دیا تو تب فرانسیسیوں نے آج کے پاکستانی غرباء کی طرح آٹے کے ٹرک لوٹنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا بلکہ اس کی بجائے انہوں نے ”گلوٹین” کے استعمال پر ہی اکتفا کیا ‘ حالانکہ وہ چاہتے توخواہ مخواہ اس دور کی اشرافیہ کے خون سے ہاتھ رنگنے کی بجائے آٹے کی ترسیل پر مامور اس دور کے ٹرکوں یعنی کوچز کو روک کر ان میں آٹے کی بوریاں ہی لوٹ لیتے تو کم از کم انقلاب فرانس کا ذکر تو تاریخ کی کتابوں میں نہ ملتا’ اس پرعلامہ اقبال کا وہ شعر ضرور یاد آگیا ہے جو انہوں نے فرعون کی جانب سے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو اپنے دور کے جوتشیوں ‘ جادوگروں اور فال بینوں کے مشورے پر پیدا ہوتے ہی قتل کرنے کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے خون ناحق سے ہاتھ رنگنے کے واقعہ پر کہا تھا کہ
یوں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کوکالج کی نہ سوجھی
گویا اگر فرعون کالج قائم کر لیتا تو اس دور کے بچے ان کالجوں میں پڑھ کر فرعون کو للکارنے کی ہمت کرتے نہ جرأت’ کیونکہ بقول مرزا محمود سرحدی
انگریزی پڑھ کر لڑکیاں بے باک ہو گئیں
”دھوئی گئیں وہ اتنی کہ بس پاک ہو گئیں”
اب یہ الگ بات ہے کہ فرعون نے صرف لڑکوں کے قتل کا حکم دیا تھا لڑکیوں کا نہیں’ خیر یہ تو برسبیل تذکرہ والی بات ہے’ مسئلہ تو آٹے کا ہے جس کوا نقلاب فرانس کے زمانے میں لوٹنے کی بات نہیں کی گئی’ بس احتجاج تک ہی اس دور کے عوام خود کو محدود رکھے ہوئے تھے اور بات جب بقول”مختارا ودھ گئی” تو پھر اسی گلوٹین کو حرکت میں لایاگیا جوتب تک یعنی ا نقلاب کی کامیابی تک صرف عوام کے خلاف استعمال ہوتا تھا اور انقلاب کے بعد کیا شاہی خاندان’ کیا امراء اور وزراء اور کیا اشرافیہ کے دوسرے طبقات’ سب بلا کم و کاست اسی گلوٹین کی زد میں آگئے تھے، تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اشرافیہ نے اس دور کے عوام کو اس دور کے ٹرک ”سولہ گھوڑوں والے کوچ” کی بتی کے پیچھے لگایا تھا یا نہیں تاہم اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آٹے کے لئے خجل خوار ہونے والے عوام مختلف شہروں اور قصبوں میں آٹے کے ٹرکوں کولوٹ کر اپنی محرومیوں کا ازالہ کر رہے ہیں’ حالانکہ رمضان کے مقدس مہینے میں ”لوٹ مار” کے آٹے سے پیٹ بھرنا کیا اسلامی نکتہ نظر سے درست بھی ہے یا نہیں مگر اس سوال پر کون سوچتا ہے ‘ اس حوالے سے ہمارا اپنا ایک تازہ شعر ملاحظہ فرمائیں
سوال ایک ہی تھا وہ بھی تھا کمال سوال
کہ جس نے دکھ کو مجسم کیا بہ شکل سوال
بات سوال کے گرد گھوم رہی ہے تو ان دنوں سیاسی معاملات کے حوالے سے بھی سوال اٹھ رہے ہیں گزشتہ روز سیاستدانوں کے ساتھ مفاہمت کے حوالے سے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الٹا صحافی سے ہی سوال کرڈالا صحافی نے رانا ثناء اللہ کے بارے میں پوچھے گئے سوال پرعمران خان نے چیں بہ جبیں ہو کر کہا”تم نے کس کا نام لیا ‘ اس کی کیا حیثیت ہے؟ اس پر ہمیں ایوبی دور کے ایک وزیر احمد سعید کرمانی یاد آگئے جن کے بارے میں بھٹو نے اسی طرح کسی صحافی کے پوچھے گئے سوال پر بڑا ہی معنی خیز جملہ استعمال کیا تھا ‘ یہ وہ دن تھے جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سوویت یونین کے ایک شہر تاشقند میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم آنجہانی لال بہادر شاستری اور صدر ایوب خان کے مابین جنگ بندی کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کے بعد اختلافات کی وجہ سے حکومت سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد ایوب خان کے وزراء نے ”توپوں کے دہانے” بھٹو مرحوم کی جانب پھیر
کر بیانات دینا شروع کردیئے تھے’ ایسے ہی ایک بیان میں احمد سعید کرمانی نے کہا تھا کہ بھٹو کی باتیں ہوا سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں’ گویا ان کی بات تو ہوا میں اڑ گئی تو اس کے بعد ان باتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے’ حالانکہ بھٹو نے ایوب حکومت کواپنے بیانات ‘ تقاریر اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے تگنی کا ناچ ناچنے پرمجبور کردیا تھا اور ایوب وزراء بھٹو کے بیانات کو عوام کے اندر کم حیثیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے’ اس وجہ سے احمد سعید کرمانی کے محولہ بیان پر بھٹو کا رد عمل معلوم کرنے کے لئے بھٹو کے سامنے صحافی نے بھی احمد سعید کرمانی کا نام ہی لیا تھا کہ بھٹو نے اس کے سوال کوکاٹتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے رخ بدل کر صحافی کولاجواب کردیا ‘ بھٹو کے الفاظ یہ تھے ”Who is she” بھٹو کا یہ جملہ ایک مدت تک سیاسی افق پر چھایا رہا اور اس کے بعد ایوبی وزراء کو ایسی چپ لگی جسے ”بولتی بند” کہا جاتا ہے’ بہرحال وہ بھٹو جیسی شخصیت کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ تھے اور ”فی لابدیہہ ” بولنے میں بھٹو کو جو ملکہ حاصل تھا وہ کم کم ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے ان دنوں کئی ایک سیاسی رہنما (رہنما؟) بیانات دیتے ہوئے اپنی زبانوں پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں اور خصوصاً خواتین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایسے جملے بول دیتے ہیںجوان کی”خاندانی تربیت” کو بے نقاب کردیتے ہیں’ ایسے رہنمائوں (؟) کی کھیپ کی کھیپ تقریباً ہر سیاسی جماعت کے اندر موجود ہے’ اپنی طرف سے اگرچہ یہ لوگ جملے بازی کرتے ہوئے مزاحیہ انداز اختیار کرتے ہیں مگرا نہیں یہ نہیں معلوم کہ مزاح اور پھکڑ پن میں ایک باریک حد فاصل ہوتا ہے جس کو جانے بغیر ان کے جملے”سرحد پار” جا کر خود ان کی”برہنگی” کا باعث بن جاتے ہیں اس لئے شاعر نے کہا تھا
لفظ سے بھی خراش پڑتی ہے
تبصرہ سوچ کر کیا کیجئے !

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال