میں ہوں بلا کا بدحساب ‘ اس کو حساب چاہئے

ہمارے سیاسی رہنمائوں کابھی کرنل شفیق الرحمان(بعد میں میجرجنرل ریٹائر ہوئے) کے ایک کردار”منے میاں” کاسا حال ہو رہا ہے جس نے ٹیوشن پڑھانے والے ماسٹر جی کے پوچھنے پر ”ایک سے سو تک گنتی گنتے ہوئے ایک سے دس تک پہنچنے کے بعد آگے غلام ‘ بیگم ‘ بادشاہ کہہ کرماسٹر جی کو ناراض کردیا تھا ‘ جبکہ رواوی یعنی کہانی بیان کرنے والے سے حاشیہ آرائی کے طور پر آگے یہ کہہ کر منے میاں کے موقف کی وضاحت کی تھی کہ ”اس میں منے میاں کا بھی زیادہ قصور نہیں تھا کیونکہ ان دنوں گھر میں تاش بہت زیادہ کھیلی جاتی تھی”۔ اب ہم نے جو سیاسی رہنمائوں کی حالت منے میاں جیسی بتائی ہے تواس کا کارن یہ ہے کہ گزشتہ کئی برس سے ان کی گنتی بھی ڈانواڈول ہو چکی ہے اور خاص طور پر جب ملک کی آبادی 22 کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی تھی تو اب اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے یہ لوگ کبھی 23’ کبھی 24 اور ایک آدھ تجزیہ نگار ‘ وی لاگرنے توآبادی 25 کروڑ بھی کردی تھی ‘ لیکن اس پر بھی یہ لوگ کسی ایک ہندسے پر ٹک ہی نہیں رہے اور ہندسوں کا یہ بحران تھرمامیٹر اور بیرومیٹرکی طرح اوپرنیچے جارہا ہے یعنی 23اور 25 کے بیچوں بیچ اتار چڑھائو کے عمل سے گزر رہا ہے ‘ گویا 22 کروڑ سے 23 کروڑ تک تو کچھ عرصہ سبھی متفق تھے لیکن اس کے بعد کھیل ہندسوں سے آگے بڑھتے ہوئے غلام ‘ بیگم اور بادشاہ کے بیانیوں تک پہنچ چکا ہے کیونکہ سیاست کھیل ہی اقتدار کا ہے جبکہ اقتدار کی راہداریوں میں یہی تین کردار ہی تو اہمیت کے حامل ہیں ‘ یعنی غلام جنہیں عرف عام میں عوام کالانعام(ڈھورڈنگر) کہتے ہیں ‘ ساتھ ہی راج سنگھاسن پر بیگم اور بادشاہ ہی تو متمکن ہوتے ہیں ‘ رہ گئے ”درباری” تو وہ شامل با جا کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں ‘ خوشامد پرستی سے اپنا مقام متعین کرتے ہیں ‘ اور جب بھی منہ کھول کرگنتی کے اس کھیل کی جانب توجہ دلاتے ہیں تو تقریباً ہر سیاسی جماعت کے دعوئوں میں ”غلام ابن غلام ابن غلام یعنی 23 کروڑ عوام کا موقف ہے اور سارے عوام ہمارے ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ ‘ اس قسم کے بیانات دیتے ہوئے انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان لوگوں نے جب جب بھی یہ اقتدار میں آئے یا ہیں ‘ عوام کے لئے کیا کیا ہے؟ یعنی عوام کو انہوں نے گنتی صرف یہ سکھائی ہے کہ ”دو جمع دو چار روٹیاں” ۔ گزشتہ 75 سال سے گنتی کا یہی گندہ کھیل جاری ہے ‘ عوام کے مسائل کا انہیں ادراک ہی نہیں یا اگر ادراک ہے تو یہ صرف ان کروڑوں لوگوں کو سیاست کی سانپ سیڑھی کے کھیل میں بطور سیڑھی ہی استعمال کرتے ہیں ‘ وہ مریں یا جئیں ان کی بلا سے ان کو اپنے اقتدار ہی سے غرض ہے اس لئے یہ ایک سے دس تک گنتی پہنچنے کے بعد اقتدار کی غلام گردشوں میں پناہ ڈھونڈتے ہوئے ان مسائل سے زیادہ اپنے مفادات کی شطرنج کھیلنے لگ جاتے ہیں اور انہیں آگے گنتی بھول جاتی ہے ‘ بس غلام ‘ بیگم ‘ بادشاہ یاد رہ جاتے ہیں ‘ مگر جن غلاموں(عوام کالانعام) کویاد کرکے انہیں اپنا ہمنوا قراردیتے ہیں ۔ ان کا حساب کتاب کرتے ہیں ان سے ”رشتہ” صرف ہندسوں بلکہ غلط ہندسوں تک ہی محدود رہتا ہے کہ بقول جون ایلیائ
کیسا حساب؟کیا حساب؟ حالت حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے ‘ زہر زماں زماں میں ہے
23کروڑ سے 25 کروڑ کی اس گنتی کی حتمی صورت کیا ہوگی؟ ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ا ن دنوں ایک بار پھر انتخابات کے پہلے مرحلے کے طور پر ملک بھر میں خانہ شماری اور دوسرے مرحلے کے طور پر مردم شماری کاعمل جاری ہے جس کے بغیر انتخابات بے معنی ہوں گے مگر یہ سب کچھ جانتے ‘ بوجھتے اور سمجھتے ہوئے دوصوبوں میں انتخابات کے حوالے سے ”کھیل” جاری ہے اور اسی کے دوران اپنے اپنے موقف کو درست ثابت کرتے ہوئے دعوے کئے جارہے ہیں کہ ہمارا بیانیہ 23(تا 25) کروڑ عوام کا بیانیہ ہے یا الفاظ کچھ یوں ہوتے ہیں کہ پوری قوم یعنی 23 کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ جن کے ساتھ تم نہیں ہو ‘ ان کی کبھی فکر تمہیں رہی ہے نہ اس وقت ہے اور بس سیاسی نعرے بازی کے طور پران کواپنا ہمنوا قرار دے رہے ہو ‘ کبھی ان سے جا کر پوچھا بھی ہے کہ واقعی اتنی تعداد تمہارے ساتھ ہے (ہرجماعت کایہی دعویٰ ہوتا ہے) تو حضور گنتی دوبارہ کر لیجئے ‘ کہ ان دعوئوں کے بعد تو کروڑوں سے معاملہ بہت آگے جا کر اربوں میں پہنچ جاتا ہے ‘ حالانکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ صرف ووٹروں ہی کوگن کر اوران میں بھی حصہ بقدر حمایتوں کے یہی ہر جماعت کی جھولی میں موجود ہوسکتاہے ‘ باقی جولوگ نہ ووٹر ہیں نہ ہی ہر شخص گنتی میں شمار ہوسکتا ہے یعنی وہ بچے جن کو ابھی بڑا ہونا ہے ‘ کئی سال بعد جا کر ووٹر بننا ہے ‘ وہ بھلا کیسے ان جماعتوں کے دعوئوں کا حصہ بن سکتے ہیں ‘ رہ گئے ووٹر تو ان کی تعداد ایک ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دوڈھائی کروڑ ہی بنتی ہے ‘ اور ان میں ہی بقول شاعر اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے ‘ کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا کی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کے ہمنوا ہوں گے ‘ توپھر کس برتے پر ملک کی پوری آبادی کو(23سے 25 کروڑ) پر ہر جماعت اپنا حق جتاتی ہے اور انہیں اپنا ہمنوا قراردیتی ہے یہ صورتحال جون ایلیاء کے کلئے کے مطابق حساب کتاب سے زیادہ بدحسابی کا ہے یعنی
اس سے نبھے گا رشتہ سود و زیاں بھی کیا
میں ہوں بلا کابدحساب ‘ اس کو حساب چاہئے
اب اصولی طورپر توگنتی گننے کے لئے گزشتہ انتخابات میں ہر جماعت کو اپنے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کے مطابق ہی اپنے ہمنوائوں کاتذکرہ کرنا چاہئے ‘ ا لبتہ یہاں ایک اور اڑچھن آپڑتی ہے ‘ یعنی وہ جو آر ٹی ایس بٹھا کر ”تھپے پہ ٹھپہ” لگا کر ”جادوگری”دکھائی گئی اس کاحساب کون دے گا؟ چلیں چھوڑیں اسے اگر رات گئی بات گئی قرار دے بھی دیا جائے پھر بھی نہ تو پوری آبادی کسی ایک کے پیچھے ہے نہ سارے ووٹر ہیں ‘ اس لئے سیاسی اخلاقیات کا نہ بھی کیا جائے کہ بقول مولانا ابوالکلام آزاد”سیاست کے پہلو میں دل نہیںہوتا” درست ‘ سادگے اور ”ساد ھارن” گنتی ہی سے کام لیاجائے تب بھی 23 کروڑ عوام پر ”حق ملکیت” کے دعوے بعید از قیاس ہیں ‘ اس لئے خدا کا واسطہ ہے یہ ناجائز دعوے بند کئے جائیں اور اپنی اپنی ڈفلی بجاتے ہوئے گنتی کو محدودیت کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کریں۔ خاص طور پر جب اقتدار کے سنگھاسن سے بندہ ایک بار اتر جائے تو اس کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور ایسے موقعوں پر قتیل شفائی یاد نہ آئے توکیا ہو جس نے کہا تھا ۔
میری بے درد نگاہوں میں اگر بھولے سے
نیند آتی بھی تو اب خواب کہاں آتے ہیں
تنہا رہتا ہوں میں دن بھر ‘ بھری محفل میں قتیل
دن برے ہوں تو پھراحباب کہاں آتے ہیں

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم