مار گئی مہنگائی

رمضان المبارک کی آمد کے بعد خیبر پختونخوا میں مہنگائی میں خاص طور پرروز بروز اضافہ اور خاص طور پر آٹے ‘گوشت ‘ سبزیوں اور اشیائے خوردنی کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں صوبائی حکومت جاری مہنگائی کی لہر کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب بیوروکریسی نے بھی آنکھیں موندھ لی ہیں جبکہ ان پر صوبائی حکومت کی نظر بھی نہیں ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہمہنگائی کا آغاز تو تحریک انصاف ہی کے دور حکومت سے ہوا تھا جس میں بتدریج تیزی آتی گئی محولہ حکومت کو ناتجربہ کاری کا طعنہ دے کر جس طرح معاشی حالات اور مہنگائی کی ذمہ دار ان پر عائد کرتے ہوئے برابر یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اگر حکومت اس وقت کے حزب اختلاف اور آج کی تجربہ کار حکومت کے پاس ہوتی تو اس قسم کی صورتحال کاکم از کم سامنا نہیں کرنا پڑتا۔مگرحالات روزبروز بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیںاٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو دیئے گئے اختیارات میں روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے سیاسی تنازعات سے قطع نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت سیاست کو ایک طرف رکھ کر عوام کو ضروریات زندگی کی اشیاء کی بلاتعطل فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے آٹا بحران درحقیقت صوبائی حکومتوں کی نا اہلی اور انتظامیہ کا مارکیٹ اور بازاروں پر اثر و نفوذ کا نہ ہونا ہے ۔ دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کے مسئلے سے قطع نظر اس وقت کا سب سے سنگین مسئلہ آٹا کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی ہے آٹا ہماری خوراک کا بنیادی جزو ہے اس کے دام روزانہ بڑھنے کی نوبت آگئی ہے عام آدمی کے لئے آٹا خریدنا ناممکن ہوتا جارہا ہے خدشہ ہے کہ صورتحال پر قابو نہ پایاگیا تو مہنگا ہونے کے ساتھ آٹا ناپید بھی ہو جائے گا ۔ گندم کے کوٹے اور آٹے کی سپلائی میں کہاں کہاں بدعنوانی ہو رہی ہے آٹا کہاں سمگل ہو رہا ہے ان سوالات کا جواب ڈھونڈنا ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شاید شامل ہی نہیں دیکھا جائے تو حالات اچانک یہاں تک نہیں پہنچے بلکہ پچھلے سال بھر سے سیاسی ترجیحات کاعوامی مفادات اور عوام کو ترجیح دینے اور ان کی مشکلات کے حل پر عدم توجہ واضح ہے جہاں سیاسی جوڑ توڑ اور آئینی عہدوں اور دفاتر کا ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو وہاں اس طرح کی صورتحال فطری امر ہوتا ہے ۔انتظامیہ آخر کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے گی اور حرکت میں کب آئے گی۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی