انارکی اور کس بلا کا نام ہے؟

ملک اپنی پچہتر سالہ تاریخ کے سنگین ترین معاشی بحران کی زد میں ہے اور دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑے ملک میں بس رسمی اعلان باقی ہے ۔آئی ایم ایف وینٹی لیٹر فراہم کرنے سے ہاتھ روکے ہوئے ہے اور ایسے میں معیشت کی سانسیں اُکھڑنا فطری ہے ۔ظاہر ہے جب اس ملک کی قیادت نے اپنے لئے یہی راستہ چنا تھا کہ جس میں غیر ملکی امداد سے ہی سانسوں کی ڈور کو بحال رکھنا مقصود تھا تو پھر ایک دن سانسوں کی اس ڈور پر یہ آزمائش تو آنا ہی تھی ۔آئی ایم ایف نے بھی عین اس مقام پر آکر ہاتھ روکا جب پاکستان کے پاس متبادل کے طو رپر کوئی آپشن موجود نہیں ۔دوست ممالک منہ موڑے بیٹھے ہیں ۔خزانے کی رونقیں بڑھانے والے مہربان اب خود انحصاری کا لیکچر دے کر رخصت کر نے لگے ہیں ۔اس معاشی بحران کے تباہ کن اثرات ریاست پر پڑے ہیں او رریاست نے کمال مہارت کے ساتھ ان اثرات کو عام آدمی پر منتقل کیا ہے اور عام آدمی بے چارہ کس حال میں جی رہا ہے یہ کیفیت ناقابل بیان ہو تی جا رہی ہے ۔پنجاب خیبر پختون خوا اور سندھ میں آٹے کی قطاروں میں لوگ جانیں قربان کر رہے ہیں ۔ دوصوبوں کے روح فرسا واقعات کے بعد کراچی میں ایک فیکٹری میںراشن اور زکواة کی تقسیم کے موقع پر بھگڈڑ مچنے سے گیارہ افراد زندگی کی بازی ہار گئے ۔حکومت نے اس واقعے کی ذمہ دار ی فیکٹری کے مالک پر عائد کرتے ہوئے فیکٹری مالک سمیت آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا ۔حقیقت میں فیکٹر ی کے مالک کا ہی سار اقصور تھا کہ اس نے ضرورت مندوں کو آٹے کے لئے بلایا تھا اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ یہاں تو پورا ملک ہی ضرورت مند ہے اور آٹے کی تلاش اور امید میں ہر اس مقام کا جوق در جوق رخ کرتا ہے جہاں سے صلائے عام ہو۔حالات کا جبر اور معاشی حالات کی خرابی کا عالم یہ ہے ایک انسانی جان کی قیمت آٹے کا تھیلا ہے ۔زمین زاد یہ قیمت درجنوں کے حساب سے ادا کرکے معاشرے کے دامن اور ماتھے پر ایک داغ سجا کر رخصت ہو رہے ہیں۔اس وقت تک آٹے کی خاطر جانیں گنوانے والوں کی تعدا د دودرجن کے قریب ہے ۔یہ وہ زرعی ملک ہے جو ایک دور میں خوراک کے معاملے میں نہ صرف خودکفیل تھا بلکہ اپنی اشیا درآمد بھی کرتا تھا مگر پھر اس ملک میں زراعت کی جگہ رئیل سٹیٹ نے لی اور زمین کا ایک ہی مصرف جانا اور سمجھا گیا کہ اس میں ایک ہاوسنگ سکیم سجائی اور بسائی جائے ۔زمینوں کو آباد کرنے کا رجحان دم توڑ گیا اور آبادی کی اربنائزیشن ہوتی چلی گئی ۔دیہاتوں میں سہولیات کی کمی اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے شہر وں کی طرف نقل مکانی کا رجحان بڑھتا چلا گیا اور شہر بے ہنگم ہوتے چلے گئے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک زرعی ملک میں لوگ آٹے کے حصول کے لئے اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔آٹا بھی وہ جو زائد المیعاد اور مضر صحت ہے کیونکہ حکمران عوام کو کوئی شے مفت میں دیں اور ا س کے معیار میں ہیرا پھیری نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ۔معاشی بحران کے اس عالم میں ایک قانونی بحران بھی جنم لے چکا ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت میں تقسیم کا عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا تماشا بنا دیا گیا ۔ایک سیدھے سادے آئینی کیس کو تکنیکی بھول بھلیوں میں ڈال کر طویل اور پیچیدہ بنادیا گیا ہے ۔آئین پاکستان میں نوے دن میں انتخابات کا بہت کھلے لفظوں میں ذکر ہے اس میں معز ماری کی ضرورت ہے نہ لمبے چوڑے دلائل کا کوئی جواز ہے ۔صر ف معاملات کو لٹکانے کی خاطر ،پیش آمدہ حالات سے دامن چھڑانے کے لئے ایک سیدھے آئینی کیس کو تکنیکی معاملات میں اُلجھا دیا گیا ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ عدلیہ کو دھمکایا جا رہا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو تماشا بنایا جا رہا ہے۔سیاسی بحران تو گیارہ مال سے ملک کی رگ ِ جاں میں زہر کی طرح اُتر گیا ہے جب محض اپنے پوشیدہ مقاصد اور بیرونی ڈکٹیشن میں ملک میں رجیم چینج کا گناہِ بے لذت کیا گیا ہے اور آج قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے ۔اس وقت سے پاکستان سیاسی اور معاشی استحکام کو ترس رہا ہے۔ یوں آج ملک میں کوئی ادارہ بھی ایسا نہیں جس پر قوم کو اعتماد ہو اور جو قوم کو موجودہ حالات میں کوئی راہِ عمل دے سکے ۔جب اداروں کی توقیر ختم ہوجائے اور لوگوں میں افراتفری پھیل جائے تو اسے انارکی کا نام دیا جاتا ہے جہاں سسٹم کی مرکزیت ختم ہو جاتی ہے اور ریاست کی چولیں ہلا کر رہ جاتی ہے ۔فیصلوں کا اختیار ریاست اور منظم سسٹم کے ہاتھ سے نکل کر جتھوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔آج پاکستان عملی طور پر اسی کیفیت کا شکار ہے ۔اس کیفیت کو ختم کرنے کا واحد راستہ انتخابات ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ انتخابات حکمرانوں کے لئے ایک ڈراونا خواب بن چکا ہے اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی اس خوف کی قبر میں دفن ہو کر رہ گیا ہے ۔ دوسری طرف حکومت کی ایک ذمہ دار ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے انکشاف کیا ہے کہ تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود آئی ایم ایف حکومت پر اعتماد نہیں کررہا ۔ایک حکومتی نمائندے کا یہ اعتراف اور انکشاف ایک لمحہ فکریہ ہے ۔حکومت آئی ایم ایف کی تمام شرائط قبول کر چکی ہے اور ان شرائط کے نتیجے میں عوام پر جو قیامت گزرنا تھی گزر رہی ہے ۔عوام مہنگائی کی چکی کے پاٹوں تلے بری طرح پس رہے ہیں اور ا ن کا کوئی پُرسان ِ حال نہیں ۔معاشی حالات کی وجہ سے اس ملک میں اب شہدائے آٹا کا اضافہ ہوگیا ہے ۔یہ وہ مرحومین ہیں جو حکومت کی طرف سے آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ سے جاں بحق ہوئے ان میں عورتیں او ربزرگ افراد شامل ہیں جن کی تعداد گیارہ بتائی جاتی ہے ۔مفت آٹے کے حصول کے لئے لمبی قطاریںاور ہجوم بتارہے ہیں کہ اس ملک میں غربت کا عالم کیا ہے اور غریب کس عذاب سے گزر رہا ہے ۔دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے یہ مناظر عالمی سطح پر پاکستان کی کیا تصویر بنا تے ہوں گے؟یہ بات محتاج وضاحت نہیں ۔یہ مظاہر اور نمونے آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنے کے نتیجے میں ہونے مہنگائی کے ہیں ۔جس نے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے ۔اس کے باوجود آئی ایم ایف کوتیل پر سبسڈی سمیت کئی معاملات پر اعتراض ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ چاہتا ہے ۔اس اضافے کا مطلب مہنگائی کی ایک اور لہر کی آمد ہے ۔ابھی تک تو عوام مہنگائی کی ایک کے بعد دوسری لہر میں بہتے چلے جا رہے ہیں اور کوئی ان کو اس صورت حال سے نکالنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔آئی ایم ایف تمام شرائط کے باوجود حکومت پر اعتماد نہیں کررہا جیسا خود حکومتی نمائندے اعتراف کر رہے ہیں تو حکومت کو اس کی وجوہات کا جائزہ لینا چاہئے ۔آخر کوئی وجہ تو ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ تمام شرائط قبول کرنے کے باوجود حکومت پراعتماد کرنے سے گریزاں ہے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ کہ موجودہ حکمران کلاس کی دیانت داری پر کئی سوالات موجود ہیں اور نیب کے کیسز اور کہانیاں اس کی مثال ہیں ۔اس کی دوسری اور بڑی ممکنہ وجہ سیاسی آویزش اور کشمکش ہے ۔ملک میں اس وقت پارلیمانی اپوزیشن کا وجود عنقا ہے ۔جو جماعت اپوزیشن کہلانے کی مستحق ہے وہ ایوانوں سے نکل کر سڑکوں کا رخ کئے ہوئے ہے اور لے دے کر راجہ ریاض اپوزیشن کا چہرہ بن کر رہ گئے ہیں جو حکومتی نمائندوں سے بڑھ کر وزیر اعظم کی تقریروں پر سر دُھنتے اور تالیاں پیٹتے نظر آتے ہیں اور حکمران جماعت کی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ایسے میں پارلیمان میں اپوزیشن کا محض نام ہی باقی ہے۔یہی نہیں حکومت اور اصل اپوزیشن کے درمیان رسہ کشی زوروں پر ہے۔جس سے ملک کا سیاسی عدم استحکام بڑھتا چلا جارہا ہے ۔یہ کیفیت صرف آئی ایم ایف ہی نہیں دوست ممالک کو بھی پاکستان کی مالی مدد سے گریزاں رکھے ہوئے ہے ۔اسی لئے وہ بھی ہر قسم کی مدد سے ہاتھ روکے ہوئے ہیںاور صرف مفید مشوروں سے مستفید کر رہے ہیں۔پاکستان کا بحران مشوروں سے حل ہونے والا نہیں اس وقت پاکستان کو ریسکیو کرنے کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم