مشرقیات

ایک مرتبہ میں بی بی فاطمہ سام کے مزار پر زیارت کے لئے گیا وہاں میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ککڑیوں کی ٹوکری سر پر رکھے حوض کے کنارے آبیٹھا اس نے پہلے تو ککڑیوں کا ڈھیر ایک طرف لگایا پھر بڑے اہتمام سے وضو کیا اس کے بعد نماز پڑھی میں نے دیکھا کہ بڑے سکون سے اور دل لگا کراس نے نماز پڑھی مجھ پر اس کے خشوع و خضوع کا بڑا اثر ہوا پھرمیں نے دیکھا کہ اس نے تین مرتبہ ٹوکرا حوض کے پانی سے دھویا اور درود شریف پڑھتے ہوئے ایک ایک ککڑی دھوتا رہا۔ اس کے بعد اس نے دھلی ہوئی ٹوکری پھر تین مرتبہ حوض میں ڈبو کر نکالی اور کنارے پر رکھ دی تاکہ اس کا پانی ٹپک جائے جب پانی ٹپک گیا تو وہ ککڑیوںکا ٹوکرا اٹھا کر جانے لگا میں فوراً اس کی طرف بڑھا اور ایک اشرفی نکال کر اس نیک آدمی کو دی انہوں نے بڑی نرمی سے میرا شکریہ ادا کیا اور پھراشرفی لوٹا دی کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔۔ یہ واقعہ حضرت نظام الدین اولیائ کی زبانی خیر المجالس میں لکھا ہے اشرفی لوٹا دینے پر حضرت نظام الدین اولیا نے فرمایا کہ میرے بھائی اگر آپ ان ککڑیوں کو بازار میں فروخت کریں گے تو آپ کو دوآنے سے زیادہ نہ ملیں گے اللہ نے میرے ذریعےآپ کو ایک اشرفی بھجوائی ہے آپ اسے لے کیوں نہیں لیتے ۔
انہوں نے کہا۔ آپ بیٹھ جائیں تو میں بتائوں کہ میں نے کس لئے انکار کیا۔میں بیٹھ گیا تو وہ بھی بیٹھ گئے ۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد بھی یہی کام کرتے تھے جب ان کا انتقال ہوا تو میں بہت چھوٹا تھا میری والدہ میری پرورش کرتی رہیں جب ان کے مرنے کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے کچھ رقم دی اور کہا اس میں سے بیس روپے تمہارے لئے ہیں باقی میرے کفن دفن کے لئے ہیں تمہارے والد کی تمام عمرکی کمائی یہی ہے ان بیس روپوں سے تم سبزی اور ککڑی خرید کر فروخت کرنا محنت کی کمائی کے سوا کسی طریقے سے ایک دھیلا نہ لینا بتایئے کہ بغیر کسی محنت کے یہ معاوضہ میں آپ سے کس طرح لوں؟ جولوگ محنت کرکے کھاتے ہیں ان کی کمائی پسندیدہ اور ان کارزق پاک ہوتا ہے شرط یہ ہے کہ کام برا نہ ہو وہ جس سے اللہ اور اس کے رسولۖ نے منع کیا ہو جیسے سودی کاروبار شراب فروشی ‘ سٹہ ‘ جوا چور بازاری ‘ ملاوٹ ذخیرہ اندوزی وغیرہ۔
ایک مرتبہ ایک صحابی حضور اکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا بہت محتاج ہو گیا ہوں کچھ مدد فرمایئے ارشاد ہوا۔۔۔ تمہارے پاس کچھ ہے انہوں نے کہابس ایک پیالہ ہے اور ایک کمبل فرمایا پیالہ لے آئو پیالہ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے وہیں فروخت کیا شاید کل چار درم آئے فرمایا دو درم کا آٹا لے کر گھرمیں دے آئواورباقی دو درم سے ایک کلہاڑی مول لواور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کرلائواور بازارمیں بیچا کرو کچھ دن بعد وہ صحابی پھر سرورکشور رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس مرتبہ وہ بہت خوش تھے کیونکہ کھانے پینے پہننے اور اوڑھنے کا کچھ سہارا ہوگیا تھا اللہ کے رسول نے فرمایا کیا یہ صورت اس سے بہتر نہیں کہ تم قیامت کے دن ان لوگوں میں شامل ہو کر خدا کے آگے پیش ہوتے جو ہاتھ پھیلائے رہتے ہیں بیشک ان لوگوں کے لئے چھوٹ ہے جومجبور اور معذور ہیں مگرہرایک کومانگنے کی اجازت نہیں۔سورہ بقرہ میں ہے ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود حرام!سود لینے والے پر اللہ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے حضرت عمر فرماتے ہیں ارشاد نبویۖ ہے کہ تاجر کوخدا کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے مگرجب مال کو زیادہ نفع کمانے کے لئے وہ روکتا اور بند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے لعنتی قراردیتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم