آگ اورروئی کی کیا دوستی

کہتے ہیں کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن جانے کے لیے تیزی سے تیاری کر رہے تھے ان کی بیگم نے یہ صورت حال بھا نپ کر استفسار کیا خیر یت ، جس پر اسرائیلی وزیر اعظم نے بے اعتنائی سے جو اب دیا کہ ایک ضروری میٹنگ ہے وہا ں جا نا ہے ، بیگم نے ٹوکا کہ آج دیو ار گریہ کی دعا کا دن ہے کیا اس میں شرکت نہ کریں گے جواب میںاسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ نہیں انھیں فوری اس ضروری کا م کے لیے پہنچنا ہے جس پر بیگم نے کچھ برہمی کا اظہا ر کیا کہ ایک مذہبی تقریب کو دنیاوی امور کے لیے چھوڑاجا رہا جس پر اسرائیلی وزیر اعظم نے بیگم سے کہا کہ لاکھو ں لوگ ہر سال خانہ کعبہ میں جمع ہو کر اسرائیل کی تباہی وبربادی کی دعا کر تے ہیں لیکن اس کے برعکس اسرائیل اپنے قدم جما تا جا رہا ہے دعا کے ساتھ عملی اقدام کی بھی اتنی ہی ضرورت ہو تی ہے زبانی کلا می سے نصیب نہیں کھلا کر تے ، دوائی سے پہلے تشخیص بھی لا زم ہے چنا نچہ میٹنگ سے فراغت کے بعد وہ دعا میںبھی شریک ہوجائیں گے ، یہا ں یہ کہنا مقصود ہے کہ پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ صرف ذہنی منصوبہ بندی ہو تی ہے جبکہ عملی حکمت کے ساتھ ساتھ جدوجہد بھی کا میا بی کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ گزشتہ دنو ں عوام کو بڑی بری طر ح بھڑکا نے کی سعی بد کی گئی اور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع ابلا غ پر بھی پی ٹی آئی نے ایک انہو نی کو ہونی قرا ر دے کر بھڑکیں بھی ماریں اور سیاسی عنا د کی بھڑاس بھی نکا لی خاص طورپر پی ٹی آئی کے بابر اعوان نے جو قانو ن وآئین کے سند یا فتہ ڈاکٹر گردانے جا تے ہیں کہ انھوں نے بڑے اضطراب کے عالم میں موجو دہ وفاقی حکومت کو کوسا اور تبّرا پیٹا کہ اسرائیل کے ساتھ تجا رت شروع کر دی ہے ، فلسطینیوں کی جد وجہد
سے غداری کرلی ہے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے ، پاکستان کے عوام کے نصیب کو گہن اس کے رہنماؤں کی طر ز سیا ست نے لگا رکھا ہے ، کیوں کہ ان کو صرف اور صرف اپنے مفادات وہ بھی ہو س اقتدار کے عزیز ہیں ملک کا کیا مفاد ہے اس سے کوئی علا قہ نہیں رکھتے ، یہ چیز صرف سیا ست ہی میں نہیں بھری پڑی ہے بلکہ بعض آئینی وقومی اداروںکے کل پرزے بھی اس جان لیوا مرض میں مبتلاء ہیں ، حالاںکہ اسرائیل کے ساتھ تجا رت معاملہ جس طور اٹھایا گیا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا مگر عوام کو گمراہ کرنے مخالفین کو زچ کر نے اور سیا سی شہر ت حاصل کر نے کی تگ ودود تھی ، ہو ا یو ں کہ کچھ عرصہ پہلے خبرآئی تھی کہ پاکستانیو ں کا ایک وفد اسرائیل کے دورے پر گیا ، اس کی بھی کنڈلی مو جو دہ حکومت سے اس طرح ملائی کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے اجا زت دی ، جبکہ اس میںکوئی سچائی نہیں جن لو گو ں کو پاکستان سے اجازت ملی اس وقت پی ڈی ایم کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ وفد میں سمندر پار پاکستانی شامل تھے جو وہاں کی شہریت رکھتے تھے ان میں ایک پاکستانی نژاد یہو دی بھی غالباًمشال نا م کا شامل تھاجس نے بعد ازاں اسرائیل کو بعض پاکستانی اشیاء برآمد کیں یہ پاکستانی پا سپورٹ پر نہیں گیا تھا بلکہ جس ملک کی شہریت حاصل کر رکھی ہے اس پر گیا تھا علا وہ ازیں پاکستانی پاسپورٹ میں اسرائیل شامل ہی نہیںہے کیو ں کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جس ملک کو تسلیم نہ کیاجائے اس ملک کا پاسپورٹ میں اندراج نہیں ہو تا چنا نچہ پاکستانی پا سپورٹ دنیاکے کسی کو نے اس کا ویز ہ حاصل نہیں کیا جا سکتا ، تحقیق کرنے پر معلوم ہو ا کہ اس یہو دی نے لبنان سے پاکستانی اشیاء اسرائیل درآمد کیں ، غالباًمقصد یہ تھاکہ پاکستان کو اس میں ملو ث کر کے پاکستان کے خلا ف ایک عنا د اور پیداکردیا جائے ، بہر حال پی ٹی آئی اور دیگر عنا صر نے ایک لہر طغیانی پیدا کی تھی جو آپ ہی بیٹھ بھی گئی تاہم سیاست کے اس پہلو میں بھی ایک بات نظرآئی کہ پاکستان میںکوئی معاملہ ہوا س میں جوش جذبات کا ر فرما رہتے ہیں اور انھی کو گرما کر مقاصد حاصل کرنے کی کا وش ہوتی ہے ، جبکہ ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کوبھی اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ جو ش جذبات میں اپنے کھر ے کو کھوٹانہیں کرنا چاہیے ۔اس وقت دنیا میں بڑی تبدیلیا ںہو رہی ہیں روس اوریوکرین کی جنگ نے بھی منظر بدلا ہے ، تاہم اس وقت سب سے بڑی تبدیلی سعودی عرب اورایر ان کے ما بین سفارتی سطح پر تعلقات کی بحالی ہے ، دونو ں اسلامی برادر ملک ہیں لیکن ایک غیر اسلامی ملک چین نے دنیا کا سفارتی منظر بدل دیا ہے ، روس یو کرین کی جنگ میں چین کا جھکاؤ روس کی جانب ہے اس کے باوجو د فرانس کے صدر چین کے دورے پہنچے اسی طرح عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بحال ہو چکے ہیںایک وقت ایسا آیا تھا کہ عرب
ممالک اورقطر کے درمیا ن تعلقات مٹ چکے تھے لیکن پھر قطر نے فٹبال ورلڈکپ کے موقع پر سعودی ولی عہد کو مدعو کیا ، اس مو قع پر دنیا نے دیکھا کہ امیر قطر سعودی عرب کا جھنڈا پکڑے کھڑے ہیں ، فرانس کے صدر کا دورہ چین کوئی معمولی بات نہیں ، دیکھنے میںآرہا ہے کہ یو رپ ایک طرف روس کے مقابلے میںیو کرین کے ساتھ کھڑا ہے تو دوسری طرف یو رپ چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر رکھنے میں جتا ہوا ہے ، جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حثیت ختم کی تو عمران خان نے بھارت سے پاکستانی سفیر کو واپس بلوالیا ، جوا ب میں بھارت نے اپنا سفیر بلوالیا ، ایسے اقدام پر ایسا ہی رد عمل ہو ا کرتا ہے لیکن اس سے کشمیریوں کے حقوق اور ان کی جد وجہد کو کیا فائدہ حاصل ہو ا یا پھر بھارت کے کشمیر کے عوام کو اس طرح حقوق غصب کرنے پر بھارت پرکیا دباؤ پڑا ،یا پاکستان کی جانب سے بھارت پر کون سا موثر دباؤڈالا جا سکا یہ ہی ہوا کہ سفارتی سطح پر جو اقدامات کیے جا سکتے تھے اس راہ میں رکا وٹ پیدا ہوئی ۔ چاہیے تو یہ دونو ںجو حقیقی ہمسایہ ملک ہیں ، ان کو دوستی یادشمنی یا یو ں پھر کہاجا ئے الفت و اختلا ف و تنا زعات کو جذبات کی نذر نہیں کرنا چاہیے ، ترکی بھی کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑ ا نظر آتاہے لیکن اس نے جذبات میں بہہ کر کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے ، اصل مقصدہے کشمیر کے عوام کو ان کا حق دلا نا ، ان کو بربر یت سے نجا ت دلا نا ، جائزہ لینا چاہیے کہ اس ہدف کو پورا کرنے کے کیا مثبت قدم یا پیش بندی کی گئی ہے ، دیکھنے میں ہے کہ کرا کریا کچھ نہیں صر ف عوامی جذبات کوبھڑ کایا ہے جیسا کہ اسرائیل سے متعلق تجا رت کے مسئلے کا اٹھا یا گیا ، کیا ایسے اقدام سے پاکستان آگے بڑھ پائے گا ، ہر گز نہیں ۔

مزید پڑھیں:  بنوں، نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں ایف سی اہلکار قتل