ستم بالائے ستم

ڈبلیو ایس ایس پی کے ملازمین کی تنخواہوں کا قضیہ ابھی تھما نہیں تھا جس کے نتیجے کے طور پر ادارے کے ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے نہ صرف شہر میں گندگی کے ڈھیر لگ گئے تھے جو موجودہ صورتحال میں شہریوں کیلئے مچھروں اور مکھیوں کی بہتات کا باعث بن کر مختلف بیماریوں میں اضافہ کا موجب بن رہے تھے اور ساتھ ہی پانی کی فراہمی روک دیئے جانے کی وجہ سے شہری ”العطش العطش” کے نعرے لگانے پر مجبور ہوئے تاہم بڑی رد و قدح اور مشکل کے بعد تنخواہوں کا مسئلہ حل ہوا (حالانکہ بعد میں خبر بھی آئی کہ تین دن گزرجانے کے بعد بھی فنڈز ریلیز نہیں کئے گئے اور ملازمین تب تک تنخواہوں سے اسی طرح محروم ہیں) صفائی ستھرائی بھی شروع کردی گئی اور پانی کی فراہمی بھی بحال کردی گئی کہ اب تازہ ترین خبروں کے مطابق شہر کے کئی علاقوں پر ایک نئی افتاد آپڑی ہے اور پیسکو نے بعض علاقوں کے ٹیوب ویلوں کے بجلی کنکشن کاٹ کر ایک بار پھر متعلقہ علاقوں میں کربلا کا سا سماں پیدا کردیا ہے، اس ضمن میں اخباری اطلاعات کے مطابق اندرون کوہاٹی گیٹ، شاہ برہان روڈ، کوچہ رسالدار اور دیگر علاقوں کے رہائشی ان علاقوں کے ٹیوب ویلوں کی بندش کی وجہ سے دوسرے قریبی علاقوں سے بالٹیوں اور کنستروں میں پانی بھر کر لانے پر مجبور ہیں جبکہ محولہ علاقوں کی مساجد میں بھی پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مساجد کو تالے لگ گئے ہیں اور لوگوں کو عبادت میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس حوالے سے ظاہر ہے پیسکو ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ پیسکو بجلی فراہم کرنے کے عوض بلوں کی ادائیگی چاہنے کے علاوہ اور کوئی مطالبہ نہیں کر رہی ہے اور یہ ذمہ داری ڈبلیو ایس ایس پی کے حکام کی ہے کہ وہ شہر بھر میں عوام سے ہر مہینے آبنوشی مقاصد کیلئے ٹیوب ویلوں سے پانی کی فراہمی کے بل نہ صرف باقاعدگی کے ساتھ وصول کر رہے ہیں بلکہ اکثر علاقوں میں بلوں کی بروقت فراہمی کو یقینی نہ بنانے کی وجہ سے صارفین کو جرمانوں کے ساتھ اگلے بلوں کی ادائیگی پر مجبور کر رہے ہیں، یہاں تک کہ پانی کے بل بینکوں کے ذریعے بھی وقت پر نہیں بھیجے جاتے اور صارفین بلاوجہ جرمانے بھرتے رہتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ جب پانی کے (جرمانوں سمیت) بل وصول کئے جارہے ہیں تو ٹیوب ویلوں کے بلوں کی ادائیگی بروقت نہ کرکے عوام کو پانی سے محروم کیوں کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟