سرکاری ہسپتال اور صفائی

بحیثیت قوم ہم اپنے روزمرہ کے معمولات کو درست کرنے کی بجائے ہر ایک بات پر حکومت کو موردالزام ٹھہرانے کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہیں کئی کام ایسے ہیں کہ ان میں ہمارا ایک ٹکا نہیں لگتا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہ اس پر زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی بلکہ ذرا سی احتیاط اور احساس ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں ہوٹلوں کی صفائی کا تو خصوصی خیال رکھاجاتا ہے یہاں تک کہ اس کے باورچی خانہ کی بھی جانچ پڑتال ہوتی ہے یہ سرکاری سطح پر بھی ہوتا ہے اور عام آدمی بھی خوب تسلی کرتاہے یہ بھی قابل تعریف ہے ۔ یہ سب ضروری اس لئے بھی ہے کہ جب ہمارے رہنے کی جگہ اور کھانے پینے کی جگہیں صاف ستھری ہوں گی تو ہماری صحت بھی ٹھیک رہے گی اور پرہیز علاج سے بہتر کے کلیے پر چلیں تو کم بیمار ہوں گے تو دواپر اٹھنے والے اخراجات کے بدلے بھی ہم اپنے رہن سہن کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
اور اگر خداناخواستہ کسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال جانا پڑ جائے تو وہاں صفائی کا جتنا اچھا انتظام ہوگا بیماری اتنی جلدی درست ہونے کے امکانات ہیں اور اگر ہسپتال گندے ہوں گے تو جس بیماری کے ساتھ ہسپتال آئے ہیں اس کے ٹھیک ہونے میں وقت اور پیسہ زیادہ لگے بلکہ یہ امکانات بھی ہیں کہ کئی اور بیماریاں بھی جاتے ہوئے ساتھ لے جائیںاور گھر میں موجود بچے اور بزرگ افراد کو یہ جراثیم منتقل کرکے انہیں بھی ہسپتال پہنچانے کا انتطام کردیں۔ اس سارے جھنجٹ سے بچنے کا ایک آسان نسخہ یہ ہے کہ جب ہم کبھی بھی کسی ہسپتال جائیں تو کم سے کم لوگ جائیں اور وہاں پر صفائی کے لئے دی گئی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہسپتال کہ جہاں جراثیم کی بھر مار ہوتی ہے کی طرف اتنی توجہ نہیں دی جاتی سارے نہیں مگر کئی ہسپتالوں کا عملہ اپنے کپڑوں اور اوزار کو پوری طرح جراثیم سے صاف نہیں کرتاجس سے بیماریاں دوسرے مریضوں بلکہ بعض اوقات خود ہسپتال کا عملہ بھی بیمار پڑجاتاہے ۔ بحیثیت قوم ہم بیمار ہوجانے کے بعداقدامات کرنے کے عادی ہیںلہٰذا حکومت نہ ہی عام آدمی صحت مند رہنے کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔یہاں اکثر اوقات ہوتا یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو آگاہی ہی نہیں ہوتی اور جب تک آگاہی نہیں ہوگی کہ بیماریاں پھیلتی کیسے ہیں یا ان کے تدارک کے لئے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے تب تک کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ ہمارا عام آدمی گھربیٹھے حکومت کو کوستا رہتا ہے۔لیکن کوسنے سے کچھ ٹھیک ہونے والا نہیں لہٰذا ایک باشعورشہری کی حیثیت سے کم از کم صحت کے بارے میں آگاہی کے لئے ہرپاکستانی کو ہر سطح پر کام کرنا ہے ۔ میں اپنے کالموںکے ذریعے بیماریوں سے بچنے کے لئے مفید معلومات بہم پہنچانے کی اپنی کوشش کرتا رہتاہوں۔ گزشتہ بتیس برسوں میں اچھی خاصی تناسب سے میرے کالم صحت و صفائی پر شائع ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ انشاء اللہ آگے بھی جاری رہے گا۔
اچھی صحت کے لئے پرہیز کے ساتھ ساتھ ہمیں صاف ستھرائی کا بھی خیال رکھنا ہوگا اپنے گھراور محلہ کو صاف رکھیں گے تو بیماریاں پھیلنے کے مواقع کم ہوجائیں گے ۔عام طور پر تو کہا جاتا ہے کہ اچھے ہسپتال کا مطلب ہے ہسپتال میں جہاں ڈاکٹروں کی ٹیم اچھی ہونی چاہئے وہیں نرسنگ کئیر بھی اتنی ہی ضروری ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہاں صاف صفائی کا پورا اہتمام ہوکیونکہ سب جانتے ہیں گندگی بیماریاں پھیلانے کا باعث ہوتی ہے ۔ نجی ہسپتالوں والے تو اس کا خصوصی طورپر خیال رکھتے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں بھی اس کے لئے اچھی خاصی رقم مختص کی جاتی ہے جس سے بھاری تعداد میں صفائی کا عملہ بھی موجود ہوتا ہے اوردیکھا جائے تو یہ صفائی کا عملہ اپنی سی کوشش کرتے ہیں تاہم اکیلے صفائی والے عملے کا کام نہیں بلکہ ہسپتال میں آنے والے ہر شخص کو اس کا خیال کرنا ہوگا۔ہمارے یہاں لوگ ہسپتالوں میں علاج کروانے آتے ہیںمگر یہ بھول جاتے ہیںیہاں کے بھی کچھ اصول ہیں۔ جیسا صاف ستھراہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں ویسا ہی اوروں کے لئے بھی چھوڑنا چاہیے۔
بین الاقوامی سطح پر ہسپتالوں کو صاف ستھرارکھنے کے لئے معیار مختص کیے گئے ہیں اور قوانین بنائے گئے ہیں ۔پرائیویٹ ہسپتال اس لئے بھی چمک رہے ہوتے ہیں کہ ان کی بلڈنگ نئی ہوتی ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں کی بلڈنگ پرانی ہوچکی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ بہت زیادہ رش کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں کی عمارتیں وقت سے بہت پہلے خراب ہوجاتی ہیںاور پھر ان کی صفائی قدرے مشکل اور تھکا دینے کا کام ہے یہاں پرمریضوں کے لواحقین کی اوٹ پٹانگ مصروفیت کی وجہ سے اکثر فرش ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور دیواروں پر سے پلستر اتر جاتا ہے جو کہ جراثیم کا گھر بن جاتے ہیں ۔ہم عوام سے بھر پور سفارش کریں گے کہ وہ ہسپتالوں کو تفریح گاہ کی طرح کھچا کھچ بھر نہ دیا کریں بلکہ بہت ضروری لوگ ہی ہسپتالوں میںمریضوں کے ساتھ جایا کریں یوں غیر ضروری رش سے عمارتوں کے خراب ہونے کا اندیشہ بہت کم ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کے ذمہ داران سے بھی درخواست ہے کہ فرشوں کی بروقت مرمت اور دیواروں پر سالانہ رنگ روغن کردینے سے بھی جراثیم سے بچا جاسکتاہے۔ایک اور اہم بات کہ ہسپتال کے پردے اور قالین بھی اگر وقت پر صاف کردیے جائیں تو جراثیم کے پنپنے کی جگہ ختم کی جاسکتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں اس بات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہسپتال کے لئے نئی مشینری خریدی جائے یا تعمیر وغیرہ کی جائے تو انفیکشن کنڑول کمیٹی سے مشورہ ضرور کرلینا چاہئے وہ اپنے تجربے سے بتادیں گے ان نئی اشیاء کی صفائی آسانی سے ہوسکتی ہے یا نہیں۔
ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی سے نہ صرف ہسپتال میں آنے والے مریض، ہسپتال کا عملہ ، عمارت بلکہ کسی بھی ہسپتال کی مشینیں اور آلات بھی محفوظ رہیں گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح کسی بھی گاڑی کو دھلوانا اور سروس کروانا اس کی کارکردگی کو بڑھا دیتا ہے اسی طرح ہسپتالوں میں جتنی زیادہ صفائی ہوگی اس کی مشینیں کی بھی عمر اور کارکردگی بڑھ جائے گی۔ جس سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوںگے یوں عام اور غریب آدمی تک صحت کی سہولیات پہنچائے جاسکیں گے۔ بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں لگی مشینیں زیادہ دیر تک چلیں گی ، ان کے خراب ہونے کے مواقع کم ہوںگے یوں جلدی جلدی بدلنی نہیں پڑیں گی اور اس بچنے والی رقم سے چھوٹے شہروں میں بھی علاج معالجے کی سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں گی۔ کیونکہ آج کل صرف بڑے شہروں میں جدید مشینیں لگی ہیں اور پورے صوبے کا رش صوبائی دارلحکومت یا بڑے شہروں کی طرف ہوتاہے اور پھر جدید مشینوں کے چھوٹے شہروں میں لگنے سے یہ رش کم ہوگا اور صحت کی سہولیات چھوٹے شہروں کو بھی ملنا شروع ہوجائیں گی۔ بیماروں اور تیمارداروں کا ہسپتالوں میں رش ہونے سے صفائی ستھرائی زیادہ ہوگی اور معاشہر صحت مند رہے گا۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی