ضم اضلاع کے عوام کی محرومیاں

مشرقیات

اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھِسل جاؤ گے
ماؤزے تنگ نے بہت عرصہ پہلے یہ کہہ دیا تھا۔۔۔”چین گونگا نہیں ہے۔ اس کی اپنی ایک زبان ہے۔ اگر دنیا ہمارے قریب آنا چاہتی ہے یا ہمیں سمجھنا چاہتی ہے تو اسے ہماری زبان سمجھنا اور جاننا ہو گی۔”کیا اردو کے بارے میں ہم یہ الفاظ استعمال نہیں کر سکتے؟؟؟اردو الفاظ کو اردو حروف تہجی (ا، ب، پ) میں لکھنے کے بجائے a، b، c یعنی انگریزی حروف تہجی میں لکھنا رومن اردو کہلاتا ہے۔اکثر لوگوں نے بٹنوں والے چھوٹے موبائلز اور کمپیوٹر کی بورڈ انگریزی میں ہونے کی وجہ سے رومن اردو لکھنی شروع کی اور اب اصل اردو لکھنے کی تمام تر سہولیات ہونے کے باوجود وہ رومن اردو ہی استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں اور بہت سے لوگ اسے معمولی اور بے ضرر بات سمجھتے ہیں، جو کہ خام خیالی ہے۔روز مرہ کے استعمال میں لکھنے والا صرف اپنا مدعا اور نقطہ نظر سمجھانے پر زیادہ زور دیتا ہے نہ کہ زبان کی ادبی درستگی اور قواعد و گرامر کی پابندی پر، بلکہ اپنی بول چال کو ہی تحریری شکل میں سوشل میڈیا پر چلایا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں رومن اردو کے لیے کسی طرح کی تشویش کا اظہار بے معنی لگتا ہے لیکن دنیا کی کئی زبانیں جس طرح سے اپنے روایتی رسم الخط کو چھوڑ کر رومن رسم الخط میں ضم ہو گئیں اس سے اردو کے لیے تشویش کا پیدا ہونا حق بجانب لگتا ہے۔ملائی اور انڈونیشی زبانیں اس کی واضح مثال ہیں، جن کا روایتی رسم الخط اب ناپید ہو چکا ہے اور پوری زبان اب رومن رسم الخط میں لکھی جارہی ہے۔ ترکی زبان کا بھی یہی حال ہے کہ جس کا رسم الخط کبھی عربی اور فارسی ہوا کرتا تھا اب پوری طرح سے رومن ہے اور ترک اب اپنی زبان اپنے روایتی انداز میں لکھنے پر قادر نہیں ہیں۔موبائل میں تو کسی لفظ کے ایک دو حروف لکھیں تو کی بورڈ پورا لفظ تجویز کر دیتا ہے مگر کبھی ہمیں کاغذ پر کچھ زبانی لکھنا پڑ جائے تو نہ اردو الفاظ کے ہجے یاد آتے ہیں اور نہ انگریزی الفاظ کے سپیلنگ۔ مختصراً یہ کہ رومن اردو کا استعمال طلبہ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رومن رسم الخط کو ہی رائج کر دیا جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے یہ ہی اقدام کیا تھا۔ مصطفیٰ کمال نے عربی رسم الخط میں ترکی لکھنے کے بجائے رومن رسم الخط میں ترکی لکھنے کا فرمان جاری کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد خاص کر نئی نسل کے لیے عربی رسم الخط میں لکھی تمام کتب فقط یاد ماضی بن گئیں ۔ اگر آپ اردو زبان کے تمام شعری و نثری، تاریخی و مذہبی سرمائے کو خیر باد کہنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کریں اور رومن رسم الخط کو رائج کروا دیں مگر کوئی نادان ہی ایسا فیصلہ کرے گا۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو