ضم اضلاع کے عوام کی محرومیاں

آٹھ ہزار ملازمین کا مسئلہ

خیبرپختونخواکے27اضلاع میں شروع کئے گئے سیکنڈ شفٹ سکولز پروگرام کے8ہزار ملازمین کو چارماہ سے تنخواہیں جاری نہ ہونے کے باعث مقامی طور پر بھرتی بیشتر ٹیچرز کی جانب سے ملازمت چھوڑنے کے بعد شاگردوں کی پڑھائی کا متاثر ہونا فطری امر ہوگا۔ مستزاد آئندہ دنوں کے دوران سیکنڈ شفٹ پروگرام تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث بند ہونے کا خدشہ ہے واضح رہے کہ 27 اضلاع میں سیکنڈ شفٹ کا آغا ز کیا گیا تھا لیکن مالی خسارے کے باعث سرکاری سکولز میں سکینڈ شفٹ پروگرام اب محکمہ تعلیم کے لئے بوجھ بن رہا ہے۔ستائیس ا ضلاع میں شروع کردہ اس تجربے کی اصابت و کامیابی سے قطع نظر ایک طریقہ کار کے تحت بھرتی شدہ اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی محکمہ تعلیم کی ذمہ داری ہے قبل ازیں بعض اضلاع میں اس تجربے کو ناکام گردان کر اساتذہ کو فارغ کرنے کی بھی ا طلاعات تھیں جس کے بعد شکوک و شبہات میں مزید اضافہ فطری بات ہو گی جبکہ مختلف محکموں یہاں تک کہ بی آر ٹی جیسی عوامی سہولت پر مبنی سروس کو چلانے کی ذمہ داری نبھانے والی کمپنی کے بھاری واجبات کی عدم ادائیگی صحت کارڈ جیسے عوامی سہولت کے حامل منصوبے کو چلانے کے لئے کمپنی کو بروقت ادائیگی میں ناکامی اور تاخیری حربوں کے باعث سرکاری اداروں پر اعتماد کا متزلزل ہونا فطری امر ہے ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے سیکنڈ شفٹ کے اساتذہ کی تنخواہوں کے حوالے سے خدشات بے جا نہیں مستزاد چار ماہ کا عرصہ کم نہیں ہوتا محکمہ تعلیم کے حکام کی جانب سے اگرچہ تنخواہوں کی ادائیگی کا عندیہ دیا جارہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چار ماہ کی تاخیر کیوں کی گئی نیز کیا چار ماہ کی تنخواہیں یکمشت ادا کی جائیں گی اور بجٹ کی آمد آمد پر ان کا حساب بے باق کر دیا جائے گا۔بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اور خدشہ ہے کہ سیکنڈ شفٹ سکولز پروگرام کے آٹھ ہزار ملازمین بدستور مسائل کا شکار رہیں گے یا پھر ان کو فارغ کر دیا جائے گا اس ضمن میں حکومت کو صراحت سے وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ تنخواہوں کی مکمل ادائیگی کرکے ملازمین میں پھیلی بے چینی کو دور کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ ان ملازمین کو مزید متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا اور ان کے مستقبل کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کا ازالہ کرکے ان کو یکسوئی کے ساتھ کام کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟