کب سوچیں گے کہ فیصلہ کرلیں

دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے یورپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اپنی ہی تباہی سے تنگ آئے یہ ملک اس نتیجے پر تو پہنچ ہی گئے تھے کہ اس لڑائی اور جنگ و جدل کا کوئی فائدہ نہیں تباہی’ پریشانی ‘ معاشی مشکلات اور شدید ترین مہنگائی سے یورپ گزر رہا تھا اور اس جنگ کے بعد کئی دہائیاں گزار لینے کے باوجود معاملات میں سدھار بہت کم دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت یورپ میں آپس کی اس لڑائی کو ختم کر کے مشترکہ مفادات کے لئے اکٹھے جدوجہدکی کوشش کی سوچ جڑ پکڑ رہی تھی۔ اپنی اپنی سرحدوں میں قید یہ ملک یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ اس جنگ اور ان سرحدوں سے انہیں کیا حاصل ہوا ؟ حالات کی بہتری کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایک مشترکہ منزل کی طرف باہم جدوجہد کرتے ۔ وہ منزل جو دنیا میں ترقی کی منزل تھی ، معاشی بہتری اور استحکام کی منزل تھی۔ مفاد کو یوں یکجا کر دینا تھا کہ وہ ہر ایک کی ضرورت بن جاتا۔ یہ کام آسان نہیں تھا ۔ مسلسل متحارب ملکوں کا یہ فیصلہ کرنا کہ اب وہ جنگ نہ کر ینگے بلکہ مل کر کام کرینگے ۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں گے ۔ انائوں کے گنبد توڑ دینگے ۔ اس سب کا آغاز باقاعدہ طورپر1951ء میں فرانس سے ہوا جبکہ فرانس کے وزیر خارجہ کی جانب سے ایک پلان پیش کیا گیا۔ یہ بیان فرانس اور مغربی جرمنی کے کوئلے اور لوہے کے ذخائر کو ایک اتھارٹی تلے یکجا کرنا تھا ۔ یہ وہ قدم تھا جس نے ایک متحدہ پورپ کی بنیاد ڈالی ۔ کیونکہ فرانس کے وزیر خارجہ شومن (Schuman) کا کہنا تھا کہ پورپی ملکوں کے متحد ہونے کی بنیاد فرانس اور جرمنی کی پرانی دشمنی کے خاتمے میں ہی رکھی جا سکتی تھی ۔یہ اتحاد دونوں ملکوں کے درمیان کسی جنگ کے امکان کو نا ممکن بنا دیا ۔ کو نیڈایڈنیرجو کہ جرمنی کے پہلے چانسلر تھے نے اس پلان کے ساتھ اتفاق کیا ۔ اس معاہدے پر فرانس اور جرمنی کے علاوہ بیلیجم ، اٹلی، نیدر لینڈ اور لیکمبرگ نے بھی دستخط کئے اور یوں مئی18اپریل1951کودستخط ہونے والا یہ معاہدہ اور یورپی یونین کی بنیاد کی پہلی اینٹ بن گیا۔
اس وقت پاکستان میں مسائل کا ایک انبار ہے ۔ داخلی معاملات ایسی کھینچا تانی اورکشمکش کا ماحول ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کیا ہو گا؟اس ملک میں بہتری کی کسی صبح کی امید بھی رکھنی چاہئے یا ہجرت کی تیاری کرنی چاہئے ۔ اس ملک میں سیاست دان ‘ انتظامیہ ‘ مقننہ ‘ عدلیہ سب ہی اپنی اپنی سوچ چاہتے ہیں اور اس سب کے ساتھ ساتھ یہ یقین رکھتے ہیں کہ صرف انہی کی سوچ ہی مکمل درست ہے اور دوسرے کسی کی نہ سوچ درست ہے اور نہ ہی فیصلے کا کوئی حق ہے ۔سو کشمکش میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ‘ اور اس سب کی درستگی ‘ اطمینان اور فضا میں ایک عمومی ہم آہنگی کی کیفیت پیدا کرنا بہت اہم ہے ۔ یہ فضا ہی پاکستان میں بہتری کی امید پیدا کر سکتی ہے ‘ یورپی یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ آپس میں عرصہ قدیم سے متحارب ملکوں نے ایسی ہی بہتری اور ترقی کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے کوئلے اور لوہے کے ذخائر کو ایک مشترکہ اتھارٹی کے زیر انتظام دے دیں گے ۔ وہ مل کر جوبھی مصنوعات بنائیں گے اس میں دونوں ملکوں کا نہیں ہمارے یورپ کا فائدہ ہو گا اور ان کی اس خواہش میں چار اور ممالک بھی شامل تھے ۔ پاکستان ایک ملک ہے ‘ متحارب سیاسی گروہ اس کی سرحدوں کے اندر ہی موجود ہیں ۔ ان کے مفادات اس ملک کی سرحدوں کے بین ہی موجود ہیں اور اس ملک سے باہر کم از کم ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں جہاں تک مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لیڈر خاندانوں کی بات ہے تو وہ اپنے کاروبار کو پاکستان میں موجود اپنی وراثتی سیاسی گدیوں کے باعث بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں۔ اب اگر پاکستان میں ان کی سیاسی گدی پریشانی اور کشمکش کا شکار بھی ہوتو ان کی آف شور کمپنیاں اور کاروبار انہیں اپنا لائف سٹائل مستقل اور مستحکم رکھنے میں مدد دیں گے لیکن سیاسی پارٹیاں صرف گدی نشینوں تک ہی کہاں محدود ہوتی ہیں ۔ پارٹیوں میں ایک مکمل ٹیم کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور دونوں پارٹیوں کی ٹیم میں شامل سیاست دان ملک سے باہر جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ ان میں سے اکثریت کے کاروبار اور سیاستیں دونوں ہی اس ملک سے وابستہ ہیں ‘ پھر کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جن کے لئے پاکستان سے باہر کوئی جگہ نہیں۔ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمان گروپ) کو اس حقیقت کاادراک ہونا چاہئے ‘ ایم کیو ایم کی تعصب پر مبنی سیاست اور جمعیت علمائے اسلام کا بطور فشاری سیاسی گروہ اس ملک سے باہر زندہ رہ سکنے کا کوئی امکان ہی نہیں ۔ بلوچستان میں موجود سیاست دانوں کوبھی اس حقیقت کا ادراک ہونا بہت ضروری ہے ۔ اس ادراک کے ساتھ ہی ان سب سیاست دانوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ اگر پاکستان ہی نہ ہو تو ان کا وجود بھی نہ ہوگا۔وہ جو اس وقت حکومت کے باگ ڈور سنبھالے نظر آتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتے ‘ ان میں سے کئی لوگ اور خاندان پاکستان کی طرف کی خطرے کو بڑھتے دیکھتے ہی اپنے لندن ‘ کینیڈا ‘ آسٹریلیا اور امریکہ کے گھروں میں دکھائی دیں گے ‘ کئی دبئی تک اڑان بھریں گے اور یہاں پاکستان میں ڈوبنے والوں کو کوئی بچانے والا نہ ہو گا۔
پاکستان کو اور خود اپنے مستقبل کو بچانے کے لئے ان سب سیاستدانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ باہمی بقا اور ترقی کی بنیاد رکھیں ۔ ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ‘ سیاسی مفادات کو کچھ عرصے کے لئے پس پشت ڈالیں اور اس ملک کی فکر کریں کیونکہ اگر اب بھی یہ نہ ہوا تو کتنے ہی معاملات بگاڑ کی حجم شکل پیش نظر آرہے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ شاید اب بھی کہیں سے کوئی مسیحا آنے والا ہے ۔ ہر بار کی طرح اب بھی ہمیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ اپنی اور اس ملک کی مسیحائی کے لئے کہیں سے کوئی فرشتہ نہ آئے گا ‘ کوئی مسیحا نہ یہاں قدم رکھے گا۔ ہمیں خود اپنے لئے اس ملک کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے ہونگے اور یہ فیصلے انائوں کوبھلا کر ‘ دشمنیوں کو رفع کرکے صرف اس ملک کی بقاء اور فلاح کے فیصلے ہونگے وگر نہ ہمیں ختم ہونے میں دیر نہ لگے گی ۔ یورپ نے جوکئی ملکوں کے درمیان اتحاد کا فیصلہ کیا ہم نے مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی حد تک کرنا ہے ۔ حالات میں بہتری تبھی ہو گی ‘ پاکستان کو سانس تبھی آئے گا۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار