موسمی شدائد اور احتیاط کے تقاضے

محکمہ موسمیات کی جانب سے رواں ہفتے ملک کے بیشتر حصوں میں دن کے اوقات میں درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کے ساتھ ساتھ ہیٹ ویو جیسی صورتحال پیدا ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے محکمہ موسمیات کی جانب سے آج جاری کردہ ایڈوائزری بیان میں خبردار کیا گیا کہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آنے والے دنوں میں بجلی اور پانی کی طلب میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایڈوائزری میں عوام الناس کو مشورہ دیا گیا کہ وہ غیر ضروری طور پر براہ راست سورج کی تپش میں جانے اور اس کا سامنا کرنے سے گریز کریں اور مناسب مقدار میں پانی کا استعمال کریں۔حالیہ برسوں میں پاکستان سمیت خطے کے ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث غیر معمولی گرمی، بارشوں اور سیلابوں کا سامنا کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ طوفان اور بارش کی تباہ کاریاں بھی جاری ہیں۔ محکمہ موسمیات نے اس سال بھی شدید گرمی، بارشوں اور سیلابوں کی پیشگوئی کی ہے۔ آنے والے چھ ماہ جن کا آغاز مکھی اور مچھروں کی بہتات اور اس کے باعث پیٹ کے امراض اور ملیریا سے ہوتا ہے ۔ تیز دھوپ اور لو چلنے سے اسٹروک، بارشی اور سیلابی پانی متعدی امراض اور بعد ازاں ڈینگی مچھر اور اس سے پھیلنے والا مہلک بخار اب تک متعدد انسانی جانیں لے چکا ہے۔ گرمی کی حالیہ لہر کے تناظر میں بے احتیاتی سے بچوں کو ڈائیریا، جلدی امراض اور انفیکشن کے ساتھ ہیپاٹائیٹس اے اور ای لاحق ہوسکتے ہیں اسلئے انھیں پانی ابال کر پلایا جائے، دھوپ میں نکلنے سے روکیں ، پھل دھو کر کھائیں ، باہر کے کھانے سے پرہیز کیا جانا چاہئے بچوں کوباریک کپڑے پہنائیں اور نوزائیدہ بچوں کو گرم لباس میں لپیٹنے سے اجتناب کریں اور صحت وصفائی کا خیال رکھا جائے۔ گرمی اور برسات میں احتیاتی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے ان اقدامات کی اشد ضرورت ہے یہ اپنی مدد آپ کے مصداق احتیاطی تدابیر ہیں صحت و صفائی پر توجہ بھی ضروری ہے صوبائی حکومت اور متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے کہ مخصوص اسپرے ، فراہمی و نکاسی آب اور صحت وصفائی کے انتظامات یقینی بنائیں اور تشہیری مہم کے ذریعے عوام الناس میں ممکنہ صورتحال کے بارے میں شعورو آگہی اجاگر کی جائے اور اس پر حتی الوسع عملدرآمد انسانی جانوں کو بہت سے نقصانات سے بچایاجا سکتا ہے۔ان حالات میں شہریوں کو جن احتیاطی تدابیر کامشورہ دیا گیا ہے اس پرپوری طرح خود بھی عمل درآمد کریں اور اپنے بچوں کابھی خیال رکھیںجبکہ حکومتی سطح پر مختلف مقامات پر ٹھنڈے پانی کی فراہمی کا کم سے کم ا نتظام ضروری ہے اس سے بڑھ کر اگر وسائل ہوں تو ان کو بھی بروئے کار لانے میں بخل کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال