فلسطینیوں کو اپنی جنگ خود لڑنا ہوگی

حالات نے فلسطینیوں کو پیادوں سے زیادہ کچھ نہیں چھوڑا ہے کیونکہ عرب دنیا کے اتحادیوں نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے اور ان کی لاپرواہی کا رویہ افسوسناک اور اسلامی اخوت سے سراسرانحراف ہے مگر یہی حقیقت ہے کہ اب فلسطینیوں کو اپنی لڑائی خود ہی لڑنا ہوگی اور بے حس امت مسلمہ سے زیادہ توقعات نہ رکھی جائیں۔عالم یہ ہے کہ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، حال ہی میں مغربی کنارے پر 4,500 سے زائد ہائوسنگ یونٹس کی تعمیر کی اجازت فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے جسے تقریبا پوری دنیا یہاں تک کہ امریکہ بھی غیر قانونی اسرائیلی قبضہ تسلیم کرتی ہے۔اسرائیل کے اس اقدام سے کسی بھی ممکنہ دو ریاستی حل کو خطرہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل بالآخر اپنی بین الاقوامی طور پر منظور شدہ سرحدوں سے منسلک غیر قانونی بستیوں کو برقرار رکھنے پر اصرار کرے گا، جس سے فلسطینیوں کو مزید مشکلات سامنا کرنا پڑے گا۔یہ کسی حد تک ستم ظریفی ہے کہ تصفیہ کے عمل کو ایریل کے شیرون نے روک دیا تھا، جس کے فوجی کیریئر میں اس پر جنگی جرائم کا الزام لگایا گیا تھا، لیکن 2000 کی دہائی کے اوائل میں ان کی وزارت عظمی کے دور میں نئی بستیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی اور کچھ موجودہ بستیوں کو صاف کیاگیا تھا۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کی سیاست میں پیادوںسے زیادہ کی حیثیت نہیں کیونکہ عرب دنیا کے اتحادی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کی قیمت پر ان کو تنہاچھوڑ دیا ہے اور قبل ازیں اسرائیل کی جو مخالفت نظر آتی تھی اب اس کی جگہ اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کے عمل نے لے لی ہے اور مغربی ممالک جو کہ کہیں اور انسانی حقوق کے علمبردار ہیں، ان کے خلاف کوئی بامعنی کارروائی کرنے میں کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے یہ حالات فلسطینیوں کے لئے مزید مشکلات کا باعث ہیں مشکل امر یہ ہے کہ اب فلسطینیوں کو ایسی قیادت بھی میسر نہیں رہی کہ وہ ان کو منظم کرکے عالمی طور پر ان کا مقدمہ لڑے لیکن بہرحال جب تک معیشت خداوندی ہوگی ایسا ہی ہوتا رہے گا مگر بالاخر بازی پلٹے گی جس کا ایسا وعدہ ہے کہ اسے جھٹلایا بھی جائے تب بھی اس دن کا سورج بالاخر طلوع ہونا ہے صرف یہ نہیں کہا جا سکتاکہ ایسا کب ہوگااور اس میں کتنا وقت لگے گا۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے