75 سال کا سفرِ لاحاصل

پاکستان کے پچہتر سالہ سفر پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا حاصل فقط یہ نظر آتا ہے کہ پاکستان آج کشکول اُٹھائے قرض اور امداد کا طلب گار ہے ۔یہ وہی ملک ہے جس کی اشرافیہ کی دولت کے انبا ر مشرق سے مغرب تک جابجا لگے ہوئے ہیں اور یہ وہ قوم ہے جس کے بے شمار افراد دنیا کے کئی ملکوں میں سرمائے اور صلاحیت کی بنیاد پر اپنا لوہا منوا رہے ہیں ۔اس ملک کی حکمران اشرافیہ کے پاس بے حساب دولت اور خزانے ہیںمگر ملک کا حال یہ ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر تجوری کی تہہ کو چھورہے ہیں ۔آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہونے میں اب چند دن باقی رہ گئے ہیں اور بلوم برگ ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے مدد نہ کی تو پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو سکتا ہے ۔آئی ایم ایف کے بگڑے تیور دیکھنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے غیر ملکی سفیروں سے مدد طلب کی ہے اور خبروں کے مطابق غیر ملکی سفیروں نے آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کے لئے سفارش کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔شہباز شریف کہتے ہیں کہ دوست ملک بھی کہتے ہیں کہ کب تک قرض لیتے رہو گے ؟۔یہ سوال شہباز شریف کو پی ڈی ایم کے اتحادیوں سے بھی پوچھنا چاہئے کہ جو اسی کی دہائی سے کم یا زیادہ کسی نہ کسی طور شریک اقتدار ہیں اوراس سفر میں ڈنگ ٹپاو ہی سب سے بڑامعاشی اصول اور آئین رہا۔دن گزرتے گئے مگر پاکستان کی قومی کمر قرض کی ہر قسط اور اور اس قسط سے نمود ونمائش اور اصراف کے باعث مزید جھکتی چلی گئی ۔اور اب گردوپیش کے ممالک پاکستان کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ
کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
سٹیٹ بینک کے سابق گورنر رضا باقر نے لندن میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ ہوا تو طویل مشکل اور تکلیف دہ دور سے گزرے گا ۔انہوںنے صاف لفظوں میں کہا کہ پاکستان کو امداد لینی ہے تو آئی ایم ایف کی شرائط پر من وعن عمل کرنا ہوگا۔اس دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ آئی ایم ایف پہلے ہماراسر ی لنکا والا حال کرنا چاہتا ہے اور اس کے بعد مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ان کے مطابق پاکستان کے ساتھ جیو پولیٹکس ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سری لنکا نہیں بنیں گی اور یہ کہ ہمیں بیرونی اخراجات اپنی چادر کے اندر رہ کر کرنے ہیں۔ہم بطور ملک آہستہ چل رہے ہیں ۔اسحاق ڈار کی طرف سے پاکستان کو سر ی لنکا بنانے کی خواہش یا کوشش کا انکشاف ایک سنگین معاملہ ہے ۔ان کا یہ کہنا بھی بہت معنی خیز ہے کہ پاکستان کے ساتھ جیو پولیٹکس ہو رہی ہے ۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پاکستان سے کچھ بڑے فیصلے منوائے جانے ہیں جن کا تعلق عالمی اور علاقائی سیاست سے ہے۔ایک طرف اسحاق ڈار اپنی چادر میں رہ کر اخراجات کرنے کی بات کر رہے ہیں تو
دوسری طرف نوماہ کے دوران حکمرانوں نے عالمی سیر وسیاحت کے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں ۔ایک ملک کے کئی دورے کئے گئے ہیں جن کے اخراجات کروڑوں میں ہیں۔حکمرانوں نے ان نو ماہ میں بائیس ملکوں کے ترانوے دورے کئے ہیں۔ان دوروں سے پاکستان کو خارجہ اور خزانے کے محاذ پر کیا ملا ؟یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔گزشتہ حکومت پر ایک بڑا الزام یہی تھا کہ اس کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ غیر ملکی دورے نہیں کرتے ۔محض سمیناروں میں شرکت اور فوٹوسیشن سے پاکستان کو عملی طور پر کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔یوں بھی اصل معاملات دوروں سے پہلے بیوروکریسی کی سطح پر طے ہو چکے ہوتے ہیں ۔دورہ محض رسمی کاروائی ہوتا ہے جس میں پہلے سے تیار دستاویزات پر دستخط اور فوٹو سیشن ہوتے ہیں ۔حد تو یہ کہ بیرونی دوروں کی اس گنگا میں ڈبکیاں مارنے والوں میں وزیر صحت عبدالقادر پٹیل بھی شامل ہیں ۔ان کے دوروں سے پاکستان کے شعبہ ٔ صحت کو کیا فوائد ملے یہ راز شاید ہی کبھی افشا ہو ۔ایسے ا کثر دورے ”دورہ برائے دورہ ” ہوتے ہیں مگر اس کی قیمت پاکستانی عوام کو چکانا پڑتی ہے ۔پاکستان کے حکمران طبقات کو سیر وسیاحت کا بہانہ درکار ہوتا ہے بس ایک عدد دعوت نامہ آجانا چاہئے جس کے بعد ہمارے ابن بطوطہ سیاح کے طور پر تسخیر عالم کو چل پڑتے ہیں ۔دورے کو چونکہ سرکاری ٹچ ملا ہوتا ہے اس لئے اخراجات کے لئے قومی خزانہ حاضر ہوتا ہے ۔یہ آج کی نہیں پاکستان کے سیاسی نظام اور حکمران طبقات کی پرانی روش ہے ۔انہیں گھومنے پھرنے کا بہانہ درکار ہوتا ہے ۔یہ دیکھے بغیر کہ قومی خزانے کا حال کیاہے اور عوام کن حالات سے دوچار ہیں ۔چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے والی بات تو یہاں بے کار ہی ثابت ہو رہی ہے ۔چادر کا حال یہ ہے کہ وہ تار تار ہو چکی ہے ۔اس میں سو چھید ہو چکے ہیں اور رفو گری پر کوئی دوست ہمسایہ ساتھی تیار نہیں ۔اس دریدہ دامن اور بریدہ چادر کو دیکھے بغیر ہمارے حکمران اخراجات کو کنٹرول کرنے کو تیار نہیں۔ماضی میں اگر اصراف سے گریز اور اپنے جامے کے اندر رہنے کا اصول اپنایا گیا ہوتا تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ماہر معیشت حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6یا6.5سے بڑھ کر 11.10تک پہنچ چکی ہے اور اس عرصے میں دس کروڑ سے زیادہ افراد خطِ غربت سے نیچے جا چکے ہیں ۔آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہونے کا وقت قریب سے قریب تر آرہا ہے مگر کوئی ڈیل نہیں ہو رہی ۔آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونا بھی عذاب اور معاہدہ نہ ہوا اس سے بھی بڑی آفت ہے ۔پاکستان عالمی معاشی اداروں کی گرفت میں آچکا ہے اور اس حصار سے نکلنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آرہی ۔رہی سہی کسر اسحاق ڈار کے اس انکشاف نے پوری کر دی کہ آئی ایم ایف پاکستان کو سری لنکا بنانا چاہتا ہے۔سری لنکا بننا ایک رسمی بات او راعلان ہے عملی طور پر پاکستان اور سری لنکا کے معاشی حالات میں زیادہ فرق نہیں رہا ۔پاکستان کو یہ دن سیاسی عدم استحکام کے باعث دیکھنا پڑرہے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ۔قومی مفاہمت کی سنجیدہ کوشش کرنے کی بجائے ایک مقبول لہر کو دبانے میں توانیاں صرف کی جارہی ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال