خسرہ وباء کی خطرناک صورتحال

صوبے میںاچانک خسرہ کی وباء پھوٹ پڑنے سے 14اضلاع کی 153 یونین کونسلوں کوحساس قرار دیتے ہوئے چھ روزہ انسداد خسرہ مہم شروع کر دی گئی ہے ۔ اب تک صوبے کے مختلف اضلاع میں خسرہ کے شک میں چار ہزار 822 بچوں کی سکریننگ کی گئی ہے جن میں سے دو ہزار 390 بچوں میںخسرہ کی تصدیق ہوئی ہے ‘ جبکہ مجموعی طور پر 22 بچوں کا انتقال ہوا ہے جن میں تیرہ بچے خسرہ میںمبتلاتھے ‘ جہاں تک خسرہ کی بیماری کا تعلق ہے اس موسم میں عموماً ہر سال یہ وباء خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے جبکہ محکمہ صحت اس حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتی اور پورے صوبے میں ہسپتالوں ‘ ڈسپنسریوں اور ہیلتھ یونٹس میں ضروری ٹیکے اور ادویات فراہم کرکے بیماری کو قابو کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتا ہے ‘ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کو ضروری فنڈز فراہم کرنے میں بخل سے کام نہ لے ‘ کیونکہ خسرے میں مبتلا ہونے والے بچوں کے بچائو اور مزید بچوں کے متاثر ہونے سے غفلت سے بیماری سرعت کے ساتھ دوسرے بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے ‘ اس ضمن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) سے بھی رابطہ کرکے بیماری کے تدارک اور فوری روک تھام کے لئے ضروری اقدام ناگزیر ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیماری سے بچائو کے لئے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے میڈیا کاموثر استعمال کیا جائے ‘ نہ صرف پرنٹ ‘ الیکٹرانک میڈیا کوفعال کیاجائے بلکہ سوشل میڈیا کو بھی استعمال کرکے بیماری کو اجاگر کیا جائے اور ضلعی سطح پر سیمینارز کا انعقاد کرکے عوام کو معلومات فراہم کی جائیں ‘ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان دونوں عیدالاضحی کی آمد کے حوالے سے جگہ جگہ مویشی منڈیاں سجی ہوئی ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ لمپی سکن بیماری بھی جانوروں میں تیزی سے پھیل رہی ہے ‘ اس کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر بھی احتیاطی تدابیر لازمی ہیں ‘ جانوروں کی منڈیوں میں ضروری سروے اور جو جانور متاثر ہوچکے ہیں ان کو ضروری انجکشن لگا کر اور دوسرے جانوروں سے دور رکھنے پر توجہ دی جائے ‘ اس ضمن میں اس بات کی تحقیقات بھی ضروری ہیں کہ سارا سال لمپی سکن کی بیماری نہ ہونے کے بعد اچانک عیدالاضحی سے پہلے اس بیماری سے جانور کیوں متاثر ہوجاتے ہیں اور اس سے پہلے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس بیماری کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال