مشرقیات

ٹائٹینک اور ٹائٹن آبدوز!!
2009 میں امریکہ کے ایک ائیروسپیس انجنیئر سٹاکٹن رش نے اوشن گیٹ (OceanGate Expedition) نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی جسکا مقصد گہرے سمندروں میں 4 سے 6 کلومیٹر کی گہرائی کی آبدوزیں بنانا تھا ۔ اس کمپنی کا ایک مقصد دنیا کے امیر ترین افراد کو گہرے سمندروں میں آبدوز کے ذریعے سیاحت پر لے جانا بھی تھا۔2009 سے اب تک اس کمپنی کی تین آبدوزیں 200 سے زائد مرتبہ گہرے سمندروں میں مختلف مقاصد کے لیے گئیں اور بحفاظت واپس لوٹیں۔ اس حوالے سے ایک اہم آبدوز جسکا چرچا آجکل دنیا بھر میں ہو رہا ہے وہ ٹائٹن تھی جسے کمپنی کے مطابق زیرِ سمندر 4 کلومیٹر کی گہرائی تک جانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر سمندر کی اتنی گہرائی میں کون سیاحت کے کیے جائے گا اور وہاں کیا ہو گا؟ اسکا جواب ہے ٹائٹینک۔ جی ہاں وہی ٹائیٹنک جس پر مشہورِ زمانہ فلم بنی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون فلم کی تیاری کے سلسلے میں 33 مرتبہ سمندر سے نیچے جا کر اسکا ملبہ دیکھ چکے ہیں۔ٹائٹینک اپنے زمانے کا سب سے بڑا جہاز تھا اور یہ 1912 میں اپنے پہلے ہی سفر پر سمندر میں تودے کے ٹکرانے سے ڈوب گیا۔ اس جہاز کا ملبہ کینیڈا کے علاقے نیوفاؤنڈ لینڈ کے ساحلوں سے 700 کلومیٹر دور آج بھی موجود ہے۔ جسے 1985 میں دریافت کیا گیا۔ یہ ملبہ سمندر میں تقریباً 4 کلومیٹر نیچے موجود ہے۔ اسی ملبے کو امیر سیاحوں کو دکھانے کے لیے اوشن گیٹ ایک آبدوز استعمال کرتی رہی جسکا نام ٹائٹن تھا۔ یہ آبدوز 2021 میں پہلی مرتبہ ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچی۔اس ٹرپ پر ایک آدمی کا ٹکٹ 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر تھا۔ خیر دوسری مرتبہ یہ 2022 میں ٹائٹینک کے ملبے تک سیاحوں کو بحفاظت لے کر گئی۔ اور اب تیسری مرتبہ 18 جون بروز اتوار کو یہ پانچ سیاحوں کو سمندر میں غرق ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے لے جا رہی تھی کہ اسکا رابطہ سفر کے آغاز کے1 گھنٹہ اور 45 منٹ بعد منقطع ہو گیا۔ ٹائٹن پر پہلی مرتبہ جانے والے ایک جرمن سیاح آرتھر لئوبل کہتے ہیں کہ یہ آبدوز مکمل طور پر محفوظ نہیں تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران ایک ہزار میٹر کے بعد آبدوز کے بیٹری سسٹم (آبدوز بجلی سے چلتی تھی) میں کچھ مسائل پیدا ہوئے تاہم بالاخر یہ آبدوز ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور انہوں نے وہاں تین گھنٹے اسکی واحد کھڑکی اور اس پر موجود کیمروں کی مدد سے ملبہ دیکھا اور پھر بحفاظت لوٹے۔ یہ چھوٹی سی آبدوز تھی جس میں چار سے پانچ افراد ایک دوسرے سے جڑ کر ہی بیٹھ سکتے تھے۔آبدوز کو ٹائیٹنک تک پہنچنے میں 2 گھنٹے اور 45 منٹ لگنے تھے۔ جسکے بعد اس نے تین سے چار گھنٹے تک ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنا تھا۔ اور پھر واپسی کا سفر کرنا تھا۔ اس پورے سفر کا کل دورانیہ کم و بیش دس سے گیارہ گھنٹے تک کا تھا۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟