اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ایک بہت پرانی بھارتی فلم”جوانی کی ہوا” یاد آگئی ‘ جس کے اہم کرداروں پردیپ کمار ‘ وجینتی مالا ‘ جانی واکر اور ڈیوڈ شامل تھے ‘ فلم کی یاد آوری کی وجہ ”مسٹر سی پیک” کا ٹائٹل پانے والے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا قومی اسمبلی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں وہ بیان ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک آدمی(آدمی؟) بہ یک وقت آرمی چیف ‘ چیف ایگزیکٹو اور صدر پاکستان کی پنشن لیتے رہے ‘ یہ غریب ملک پر بہت بڑا بوجھ ہے یہاں ایک ضمنی بات بھی سن لیجئے کہ خیبر پختونخوا کے تحریک انصاف دور کے اس وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے بھی تعریف کردی ہے ۔جنہوں نے اپنی مرکزی حکومت کے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے آنکے میں آکر آئی ایم ایف کو خط لکھنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا کہ آئی ایم ایف جو قرضہ پاکستان کو دے رہا ہے اس کی واپسی میں تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا کی حکومت کوئی حصہ ادا نہیں کرے گی ‘ یہی بات اس دور کے پنجاب حکومت کے وزیر خزانہ نے شوکت ترین سے استفسار کے نتیجے خاموشی اختیار کرلی تھی ‘ بہرحال تیمور سلیم جھگڑا نے ایک سے زیادہ پنشن کے حوالے سے پسندیدگی کااظہار کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے یہی اصلاحات متعارف کروائی تھیں ‘ کب کروائی تھیں یہ تو ہمیں نہیں معلوم اور اگر کروائی تھیں تو ہم عوام کا لانعام کو پتہ کیوں نہ چل سکا ‘ اور اگر واقعی یہ اصلاحات بقول تیمور جھگڑا کے ان کے دور میں متعارف ہوئی تھیں تو موجودہ حکومت کو ”دوبارہ” اس قسم کی اصلاحات متعارف کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور مفت میں ” کریڈٹ ” لینے کا شوق کیوں چرایا ہے ؟ وہ جو مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ ”اپنی تعریف اور تعارف کرانا کار ثواب ہے کہ اس طرح دوسرے جھوٹ بولنے سے بچ جاتے ہیں”تو اس حوالے سے تحریک انصاف والے ویسے بھی نازی جرمنی کے پروپیگنڈہ باز وزیر گوئبلز کو بھی قبر میں شرمندہ کرنے میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں بلکہ پھریرے لہرا رہے ہیں اور ان کے میڈیا ٹرولزایسے ایسے محیرالعقول کارنامے سرانجام دیتے رہے ہیں ‘ (اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے) کہ اش اش کرنے کوجی کرتا ہے ۔ بہرحال موصوف کے بیان کے کم از کم ایک حصے کی پذیرائی تو بنتی ہے کہ انہوں نے تین تین پنشنز کی وصولی پر پابندی عاید کرنے پر موجودہ حکومت کی تعریف کر دی ہے حالانکہ ان کی جماعت کے لیڈران کرام توحکومت کے اچھے کاموں میں بھی نقائص تلاش کرکے ”دل کے پھپھولے ”جلانے میں سکون محسوس کرتے ہیں ۔ حالانکہ ان کے بارے میں فراز نے بہت پہلے کہا تھا
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
یوں دیکھا جائے تو تیمور سلیم جھگڑا نے اپنے حصے کی شمع جلانے میں کسی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کیا’ خیر یہ چند جملہ ہائے معترضہ تھے جو درمیان میں آٹپکے ‘ اصل بات تو تین تین پینشنز کی وصولی کی ہے ‘ جس پر ہمیں بھارتی فلم جوانی کی ہوا یاد آگئی ‘ خاص طور پر فلم کاوہ منظر جس میں جانی واکر اور ڈیوڈ کے درمیان ایک مکالمہ کچھ اسی نوعیت کا ہوتا ہے یعنی ایک سے زیادہ ذمہ داریوں کے حوالے سے ‘ ہوتا کچھ یوں ہے کہ فلم کا ہیرو پردیپ کمار ‘ اپنے دو دوسرے ساتھیوں جانی واکر اور ڈیوڈ کے ساتھ غریب لوگوں کی بستی میں رہتا ہے ‘ حالات نہایت خراب ہوتے ہیں ‘ مشکل سے گزر بسر ہوتی ہے ‘ کہ ایک روزرات کے وقت جب وہ اکٹھے ہوتے ہیں تو فلم کی ہیروئن وجینتی مالا کچھ غنڈوں سے بھاگتے ہوئے ان کے پاس پہنچتی ہے اور اپنی حالت زار بتا کرمدد کی طالب ہوتی ہے ‘ غنڈوں سے بچا کر جب یہ اس سے اتنی رات گئے یوں بھاگنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ گھر سے زبردستی کی شادی سے انکار کرتے ہوئے نکل آنے او ریلوے سٹیشن سے نکلنے کے بعد ان غنڈوں کے پیچھے لگ جانے کی داستان سناتی ہے ‘ یہ اسے اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں ‘ اگلے روز ایک اشتہار کے اخبار میں شائع ہوتا ہے جس میں ایک سیٹھ اپنی بیٹی کا حلیہ واضح کرکے تلاش میں مدد دینے والوں کو بہت بھاری انعام دینے کا اعلان کرتا ہے ‘ اس اشتہار میں جو حلیہ دیا گیا ہوتا ہے اس میں بہت سی نشانیاں وجینتی مالامیں موجود ہوتی ہیں ‘ پردیب کمار اسے لے کر سیٹھ کے پاس چلا جاتا ہے تودوسری طرف جانی واکر اور ڈیوڈ اتنی بڑی رقم کی امید میں ہوائی قلعے تعمیر کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ رقم ملے گی تو اس کا کیاکریں گے وغیرہ وغیرہ ‘ مختلف منصوبوں میں سے بہرحال جنرل سٹور بنانے پر دونوں متفق ہو جاتے ہیں ‘ اور پھرڈیوٹیوں کی تقسیم پر بات چلتی ہے تو جانی واکر کہتا ہے سٹور کا جنرل منیجربھی میں ‘ سیلز مین بھی میں ‘ ”لیڈی ٹائپسٹ” بھی میں(لیڈی ٹائپسٹ) ٹائم کیپر بھی میں ۔۔ اس پر ڈیوڈ ہر بار سر ہلاتے ہوئے منظوری دیتا چلا جاتا ہے اور جب سب عہدے ختم ہوجاتے ہیں تو ڈیوڈ پوچھتا ہے یہ تو سارا کام تم نے سنبھال لیا میں بے کاربیٹھ کر کیا کروں گا؟ اس پر جانی واکر سوچ میں پڑ جاتا ہے اور پھر سر اٹھا کر کہتا ہے ‘ تم ایسے کرنا کہ لاٹھی لے کر سٹور کے دروازے پر بیٹھ کر نگرانی کرنا ‘ ڈیوڈ سر اثبات میں ہلاتا ہے کہ اتنے میں پردیب کماراور وجینتی مالا واپس آکر بتاتے ہیں کہ سیٹھ کی لڑکی یہ نہیں ہے بلکہ وہ تو بچپن میں اغواء ہوئی ہے ۔۔۔ بقول بسمل صابری
نہ جانے کون ہے جس کی تلاش ہے بسمل
ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے
اب جس شخصیت کی جانب وزیر خزانہ نے اشارہ کیا ہے اس کو تو اس کے عہدوں کی وجہ سے ساری دنیا جان گئی ہے ‘ البتہ تین تین پنشنز کی وصولی کامعاملہ غالباً صرف اسی تک محدود تھا ‘ البتہ دو دو پنشنز یا ایک تنخواہ جمع ایک پنشن تو یہاں عام سی بات ہے اور وہ یوں کہ کئی ایسے خوش قسمت پاکستانیوں کی بدقسمتی کی وجہ سے ابھی ایک عہدے سے سبکدوش نہیں ہوتے کہ اگلے ہی روز اس سے بھی زیادہ منافع بخش یعنی زیادہ تنخواہ پر کسی اور عہدے پر ان کی تعیناتی ہو جاتی ہے ‘ اس کے ساتھ بعض اوقات ”اللہ کی مہربانی” بھی ہن کی صورت برسنے کو بے تاب رہتی ہے ان میں اکثر تو بیرون ملک بھی”لیوش” قسم کے عہدے سے سرفراز ہو جاتے ہیں ‘ رہ گئے بے روزگار لوگ تو ان میں سے جن کی ”تگڑی” سفارش نہ ہو تو وہ بے چارے انٹرویو اور ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود پھر سڑکیں ماپنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جیسا کہ پنجاب اسمبلی میں چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ہوااور اب وہی تعیناتیاں ان کے گلے پڑتی نظر آرہی ہیں۔ بقول ابن انشائ
آنکھیں موند کنارے بیٹھو من کے رکھو بند کواڑ
انشاء جی ‘ لودھاگہ لو اور لب سی لو خاموش رہو

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ