علاقائی ترجیحی تجارت

پاکستان میں ازبکستان کے سفیر ایبک عارف عثمانوف نے امید ظاہر کی ہے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ اور ترجیحی تجارتی معاہدے کے تناظر میں پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی حجم جو اس وقت ڈیڑھ کروڑ امریکی ڈالر ہے، مقررہ فریم ورک کے مطابق ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ اس معاہدے پر رواں سال مارچ میں عملدرآمد کا آغاز ہوا تھا۔حال ہی میں علاقائی تجارت مال کے بدلے مال اور چینی کرنسی میں ادائیگی جیسے اہم فیصلوں اور اقدامات کے بعد اب علاقائی جارت میں کئی گنا اضافہ ہونا چاہئے جس کے لئے متعلقہ ملکوں کواپنے اپنے طور پرعملی اقدامات کرکے اس سنہرے موقع سے دوہرا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔امر واقع یہ ہے کہ پاکستان اور ازبکستان جو زمینی طور پر افغانستان کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، مذہبی اور ثقافتی رشتوں نے انھیں اور بھی قریب کردیا ہے اور دونوں ملکوں کی قیادتیں باہمی تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں پرعزم دکھائی دیتی ہیں۔ گزشتہ برس مارچ میں صدر شوکت میرضیا یوف کے دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان ریلوے، سیکورٹی، تجارت، موسمیاتی تبدیلی، اور سیاحت سمیت 10 معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔ رواں سال فروری میں پاک ازبک بین الحکومتی کمیشن کا آٹھواں اجلاس تاشقند میں منعقد ہوا، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں وفد نے اشیا و خدمات کے تبادلے کی شکل میں ایک ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس موقع پر تجارت، بینکاری، صنعت و پیداوار،سرمایہ کاری، ٹیکسٹائل، توانائی، تیل و قدرتی وسائل، مواصلات، زراعت،سیاحت اور ثقافت کے شعبوں میں دوطرفہ اقتصادی تعاون پر بات چیت ہوئی۔ یاد رہے کہ معاہدے کے تحت ازبکستان نے پاکستان کے ساتھ افغانستان کے راستے ریلوے منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ چند ماہ قبل جاری کی تھی جس کے مطابق مزار شریف تا پشاور 783 کلومیٹر طویل الیکٹرک ٹریک بچھایا جانا مقصود ہے۔ ازبک صدر سے ہونے والے معاہدے اورسفیر کے بیان کی روشنی میں یہ منصوبہ بروقت عملی پیشرفت کا متقاضی ہے جس سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مختلف شعبوں میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ خطے کے ممالک کے درمیان باہمی تجارت جملہ ممالک کے مفاد کاتقاضا ہے کہ درپیش عالمی حالات اور تبدیلیوں کے تناظر میں بھی خطے کی تجارت پر توجہ ہی میں بقاء کا راز مضمر نظر آتا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارت کو نئے افق سے روشناس کرانے کے لئے ان تمام شعبوں کا احاطہ کرنا ضروری ہو گاجس میں دونوں ممالک کے لئے آسانی اور گنجائش موجود ہو۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی