مجبوری کا نام شکریہ

حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے دبائو پر بجٹ میں پیش کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم واپس لینا پڑا ہے۔اب وہ بحث ہی ختم ہوگئی ہے کہ عوام پراس کے کیا اثرات پڑیں گے نیز حکومت نے بجٹ پیش کرتے ہوئے جو چال چلی تھی اب اسے بھی سمجھنا مشکل نہیں رہاکیونکہ اب یہ حقیقت کھل کرسامنے آچکی ہے کہ حکومت کے پاس ان کے دعوئوں کے مطابق کوئی متبادل نہ تھا یاپھر ممکن ہے دوست ممالک نے بھی ہاتھ کھینچ کر آئی ایم ایف سے معاملت ہی کا خاموش مشورہ دے دیا ہو بہرحال جوبھی صورت تھی اب صورتحال یہ ہے کہ ملکی معیشت کے منتظمین کے پاس فنڈ کی مدد کے بغیر کام جاری رکھنے کے آپشن ختم ہو چکے ہیں۔ ملک نے ابھی تک بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں تقریبا 3 بلین ڈالر کی رقم نکالنی ہے قبل اس کے کہ موجودہ مالی سال کے دوران غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 3.5 بلین ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ جائے۔ لہذا پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کی ان تمام شرائط کومانے بغیر چارہ کار باقی نہیں رہ گیا تھا۔بجٹ 2023-24 جسے کل پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا اس کے بعد آئی ایم ایف کے لیے اسے قابل قبول بنانے کے لیے بڑے مالی سخت اقدامات متعارف کرائے جانے کے بعد اس فنڈ کے ساتھ بیل آئوٹ ڈیل بحال ہو سکتا ہے، جو گزشتہ نومبر سے رکا ہوا تھا۔جیسا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی اختتامی بجٹ تقریر میں کہا، جی ڈی پی کے 6.5 فیصد کے اصل بجٹ خسارے کے بارے میں آئی ایم ایف کے خدشات کو بڑی حد تک 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کے نفاذ اور85ارب روپے کے اخراجات میں کٹوتیوں کے ذریعے دور کیا گیا ہے۔مئی میں منظر عام پر آنے والے اصل بجٹ پر اپنے تبصروں میں، آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ اس میں”ٹیکس بیس کو زیادہ ترقی پسند انداز میں وسیع کرنے کا موقع گنوا دیاگیا ہے”۔ قرض دہندہ نے بعض دیگر بجٹ کے اقدامات پر بھی اعتراض کیا تھا جیسے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے نئے ڈالر کی آمد کو راغب کرنے کے لیے ‘بغیر سوال اسکیم جسے اب واپس لے لیا گیا نئی مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے کے باوجود ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کا ایک اور موقع ضائع کیا ہے۔حکومت نے مجموعی طور پر 438 ارب روپے کے ٹیکس لاگو کیے ہیں جس میں سے223بلین روپے کے ٹیکس اصل مسودے میں متعارف کرائے گئے تھے مگر اس کے باوجود ریٹیل، زراعت اور رئیل اسٹیٹ جیسے انڈر ٹیکس والے شعبوں کو نیٹ میں لانے کی کوئی بڑی کوشش نہیں کی گئی۔علاوہ ازیں بھی اصلاحات کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔اگرچہ حکومت نے 35 ارب روپے کے خالص ہونے کی امید میں پراپرٹی کے لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کیا ہے، لیکن اس اقدام سے سیکٹرسے ہدف شدہ محصول حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اضافی ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ منظم کارپوریٹ سیکٹر اور تنخواہ دار طبقے برداشت کریں گے۔بہرحال امیدار اور ناامیدی کے عالم میں تین دن کی سخت گفت و شنید کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان نئی ایڈجسٹمنٹ پر معاہدہ طے پانے کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے فنڈنگ شروع کرنے سے قبل ہی پیشگی طور پر قرض دہندہ کے تین خدشات میں سے ایک کو پورا کیا گیا ہے روپے کو آزاد گرنے سے روکنے کے لیے شرح مبادلہ پر سے کنٹرول ہٹانے کے حوالے سے دیگر دو مطالبات پر کتنی پیش رفت ہوئی ہے، اور آئی ایم ایف کے اختتام پذیر مالی سال کے لیے بیرونی فنانسنگ گیپ کے تخمینے پر دونوں فریقوں کے درمیان ا ختلافات کیسے طے ہوئے ہیں اس سے قطع نظرحکومت پہلے ہی اپنی غیر ملکی کرنسی مارکیٹ کو بحال کرنے کی طرف بڑھ چکی ہے، اور یہ توقع ہے کہ فنڈ بیرونی مالیاتی فرق کے تخمینوں پر اپنی شرط میں نرمی کرے گا۔چونکہ قرض دینے والے اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں پگھلائو وزیر اعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے ساتھ ان کی حالیہ پیرس میٹنگ سمیت بار بار بات چیت کے بعد آیا ہے جس کے بعد دونوں فریق اپنے اپنے موقف میں نرمی کرتے نظر آئے ہیں۔اگرچہ 30 جون کو ریسکیو سہولت کی میعاد ختم ہونے میں صرف چند دن باقی ہیں، لیکن معاہدے پر مہر لگانے کے لیے ابھی بھی کافی وقت ہے۔ جو پاکستان کوڈیفالٹ سیبچانے کے لئے ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال