ہلاکت خیز جرگے

خیبر پختونخوا میں مروج نظام انصاف کے متوازی جرگہ نظام کے جاری رہنے میں کوئی قباحت ہے یا نہیں اس سے قطع نظر یہ ہمارے نظام انصاف اور قانون پربڑا سوالیہ نشان ضرور ہے کہ عوام اس کا سہارا لینے پرمجبو ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ نظام انصاف پر اٹھتا اعتماد ہے جہاں سالوں سال مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے اور اپیلوں پراپیل کرتے کرتے ایک دو نسلیں راہی ملک عدم سدھار جاتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ روایتی جرگہ سسٹم کو ہمارے ہاں علاوہ ازیں بھی قبولیت حاصل ہونا اپنی جگہ ایک مسئلہ ضرور ہے جہاں ایک جانب ملکی قوانین اور نظام انصاف موجود ہو وہاں متوازی نظام سوالیہ نشان ضرور ہے خواہ اس کی وجوہات جو بھی ہوں اس کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے قطع نظر اس کی قانونی حیثیت اور نظام ا نصاف کے بہرحال یہ معاشرے میں مروج ایک عمل ہے جس کا سہارا لے کر بہت سے معاملات نمٹائے جاتے ہیں اوریہ روایتی طرز تصفیہ سہل سادہ اور بروقت ہونے کے باعث مروج ہے اس کا فوری فیصلہ اور فیصلے کا یقینی نفاذ بھی اپنی جگہ فریقین کے لئے کشش کا باعث بنتا ہے مگرافسوسناک امر یہ ہے کہ اب جرگہ کا پختون معاشرے میں وہ احترام نہیں رہا بلکہ ایک جانب اہل جرگہ سے رجوع کیا جاتا ہے اور تصفیہ ہونے سے سے قبل ہی مسلح فریقین ایک دوسرے پرحملہ آور ہوتے ہیں جس کے باعث قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع معمول بن گیا ہے ایسے میں بجائے اس کے تھانوں میں موجودہ مصالحتی عدالتوں سے رجوع کی ضرورت ہے جہاں تک جرگوں میں انسانی جانوں کے ضیاع کی وجوہات ہیں اس سے قطع نظر یہ جرگہ کرنے والوں کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ مسلح فریقین کے موجودگی میں جرگہ کا عمل شروع نہ کریں بہتر یہ ہو گا کہ ثالثوں کے ذریعے معاملات طے ہوں تاکہ تصادم کی نوبت نہ آئے گزشتہ روز چار افراد کے جان بحق ہونے کا واقعہ نہایت دلخراش اور افسوسناک ہے جس سے ایک پورا خاندان موت کے گھاٹ اتر گیا اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے جرگوں پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے نیز اس امر پر بھی پولیس کی توجہ مبذول ہونی چاہئے کہ شہر میں کس طرح آزادانہ اسلحہ لے کر گھومنے کی آزادی ہے گھر گھر موجود غیر قانونی اسلحہ کی موجودگی کے باعث اس طرح کے واقعات عام ہو گئے ہیں پولیس کو غیر قانونی اسلحہ کے خلاف مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے اور عوامی مقامات پراسلحہ کی نمائش کی سختی سے روک تھام ضروری ہے ۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال