انتخابات کے التواء کی افواہیں

ملک میں عام انتخابات کے التواء یا بروقت انعقاد کے حوالے سے ایک بار پھر افواہیں گردش کررہی ہیں۔ یہاں تک کہ حکومتی اتحاد میں شامل ایک سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے حلقوں میں بھی یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ انتخابات بروقت ہونے چاہئیں جبکہ حکومت میں شامل بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) کے رہنمائوں کی جانب سے بھی موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات کے انعقاد پر کوئی منفی تاثر سامنے نہیں آیا بلکہ مسلم لیگ نون کے اندرونی حلقے تو موجودہ اسمبلیوں کی مدت کے اختتام سے بھی دو تین روز پہلے اسمبلیوں کے توڑنے کی بات کررہے ہیں تاکہ نئے انتخابات آئینی تقاضوں کے مطابق دو ماہ کی بجائے تین ماہ بعد منعقد ہوسکیں، اس حوالے سے تجزیہ نگار اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے خودبخود تحلیل ہوتی ہیں تو پھر اگلے انتخابات دو ماہ کے اندر اندر منعقد کرانا لازمی ہوگا تاہم دو تین روز قبل اگر اسمبلیاں توڑ دی جائیں تو پھر90 روز کے اندر انتخابات کرانے پڑیںگے، یوں ایک ماہ کی مزید مدت ملنے سے لیگ(ن) کے سربراہ نوازشریف کیلئے آنے والے انتخابات میں ذاتی طور پر انتخابی ریلیوں سے خطاب ممکن ہو سکے گا۔ ادھر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ روز آئی ایم ایف کے حکام سے ملاقات میں انتخابات کے بروقت انعقاد کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کو پابندکرانے پر زور دیا جبکہ آئی ایم ایف کے متعلقہ حکام نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ اس حوالے سے ایک حد سے آگے نہیں جاسکتے، دوسری جانب یورپی یونین کے چند روز پہلے انتخابات کے انعقادکے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا تھا کہ انہیں انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کیلئے ابھی تک دعوت نامے نہیں ملے اور اسی سے یہ تاثر ابھرا کہ شاید انتخابات بروقت منعقد نہ ہوسکیں تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یورپین یونین کے مبصرین کو دعوت نامے عنقریب ارسال کردیئے جائیں گے۔ ادھر یہ بھی اب طے ہو چکا ہے کہ الیکشن کیلئے تاریخ کا تعین الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے جس کے بعد سپرپم کورٹ کے اس فیصلے پر صورتحال واضح ہوکر سامنے آگئی ہے اور اس نے 14 جون کی جو تاریخ پنجاب اسمبلی کے الیکشن کیلئے دی تھی اس کی تنسیخ بھی واضح ہوگئی ہے اب الیکشن کمیشن عام انتخابات کیلئے تاریخ تب دے گا جب قومی اور بقیہ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں یا توڑ دی جائیں یعنی دو ماہ یا تین ماہ بعد؟ اس کیلئے انتظار کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے