بھتہ خوری کی نئی لہر

صوبہ خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا افغانستان میں انقلاب ثور کے بعد حالات میں بدلائو آیا اور کمیونسٹوں کے افغانستان میں برسراقتدار آنے کے بعد وہاںسے لاکھوں مہاجرین نے بوجوہ ہجرت کرکے پاکستان میں پناہ لی جبکہ ان بن بلائے مہمانوں کے اندر قانون شکنوں، تحریب کاروں اور جرائم پیشہ افراد بھی بہت بڑی تعداد میں ہجرت کرکے یہاں آئے، بدقسمتی سے نہ تو ان لوگوںکو کسی قاعدے قانون کا پابند کرکے مہاجر کیمپوں تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی (حالانکہ ایران میں انہیں کیمپوں میں بسایا تھا) نہ ہی ضیاء الحق کی ہدایات کی روشنی میں ان سے سکیورٹی اداروں نے کوئی تعرض رکھا بلکہ الٹا ان کے خلاف قانون شکنی کے ثبوت مہیا ہونے کے باوجود مقدموں کا اندراج ممکن بنایا گیا جبکہ یہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہتے دندناتے پھرتے، چھوٹی چھوٹی چوریوں کے بعد ڈاکہ زنی اور بڑے پیمانے پر سنگین وارداتوں کے بعد ان سے کوئی تعرض نہ رکھنے کی وجہ سے انہوں نے بالآخر بھتہ خوری شروع کردی بعدکی حکومتوں نے اگرچہ سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ان کے خلاف اقدامات شروع کرکے انہیں قانون کے شکنجے میں کسنا شروع کردیا تھا تاہم تیر کمان سے نکل چکا تھا اور جو قانون دشمن قابو سے باہر ہوچکے تھے ان پر قابو پانا اتنا آسان نہیں رہا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اگرچہ ان بن بلائے مہمانوں کو وطن واپسی کی راہ دکھانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی مگر محاورے کے مطابق ”چوروں کے راستے کس نے بند کئے ہیں” کے مصداق جو واپس چلے جاتے ہیں وہ اگلے تین چار روز میں واپس آکر قیام پذیر ہوجاتے ہیں، ان ہی میں قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے بھی شامل ہوتے ہیں جنہوں نے کچھ عرصے سے ایک بار پھر پشاور میں بھتہ خوری کی وارداتیں گرم کر کے بطور خاص صنعتکاروں، بڑے تاجروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے ان کے ساتھ مقامی قانون شکنوں کے شامل ہونے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اس صورتحال نے خیبرپختونخوا خصوصاً پشاور کے صنعتکاروں اور تاجروں کی صفوں میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے، گزشتہ روز بھی ایسی ہی ایک واردات میں ایک مشہور تاجر خاندان کے گھر پر دستی بموں سے حملے میں گھر کے اندر تباہی اور گاڑیوں کی بربادی کو اخبارات میں شائع ہونے والی تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سکیورٹی ادارے اس صورتحال پر کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں اس بارے میں اگر صوبائی حکام وضاحت کرے تو بہترہوگا جبکہ وفاق نے ان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع کا جو فیصلہ کیا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال