مصنوعی یا حقیقی گھن گرج؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دبئی میں مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقاتوں پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پشاور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ2بڑی حکومتی اتحادی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان شیڈول ملاقات کے حوالے سے حکومتی اتحاد میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن)پی ڈی ایم کا حصہ ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایک طے شدہ ملاقات نہیں تھی، انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پی ڈی ایم کو پیپلز پارٹی کے ساتھ ملاقات کے بارے میں اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔دریں اثناء چند روز قبل عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی جانب سے گورنر کی تبدیلی کے مطالبہ کی خبریں گردش کررہی تھیں جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے یہ اعتراض لگایا گیا تھا کہ گورنر ہائوس میں ان کے بندے توڑے جا رہے ہیں مولانا فضل الرحمن نے واضح کیا ہے کہ گورنر ہائوس سے پہلے بھی ان کے بندے ہمارے پاس آتے تھے اور اب انکے بندے گورنر ہائوس میں اپنے کام کروانے آتے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام نے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ بوکھلاہٹ اس لئے ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اگلی حکومت جمعیت علماء اسلام کی ہوگی اس صوبے میں پی ٹی آئی کو دبوچ لیں گے اس کی کوئی فکر نہیں جبکہ دیگر جماعتوں سے بھی مقابلہ کرینگے گوکہ قائد جمعیت مفاہمت اور صلح جو سیاست کی شہرت رکھتے ہیں لیکن صوبے میں تحریک انصاف کی دوسری حکومت کے بعد سے ان کا لہجہ جارحانہ ہوتا گیا اب ان کا لب و لہجہ خوداپنے اتحادیوں کے حوالے سے بھی نرم نہیں دکھائی دیتا ممکن ہے درون خانہ ایسا نہ ہو اور انتخابی ضرورت کے تحت فرینڈلی فائر ہونے لگا ہو اسی طرح پی پی پی نے بھی وزیر اعظم سے سندھ کے لئے مالیاتی مفادات کے حصول تک کچھ عرصہ لب و لہجہ تیز رکھا سیاست میں کب دوست دشمن اور دشمن دوست بن جائیں اس کی گنجائش تو رہتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نگران حکومت کے آنے تک بیان بازی میں شدت آتی جائے گی البتہ مسلم لیگ نون اورپی پی پی کی قیادت کی دبئی بیٹھک پرجمعیت علماء اسلام کچھ جز بز ضرور لگتی ہے لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں اتحادیوں کی سب سے زیادہ شکایات بھی جمعیت سے ہے جو کلی اختیارات کے آزادانہ استعمال میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتی صرف اے این پی کے جوانسان صوبائی صدر نہیں مسلم لیگ نون کے رہنمابھی سٹیج پر ببانگ دہل اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں ایسے میں دبئی کی سیاست بیٹھک پر یوں ا ظہار ناراضگی بے معنی اس لئے ہے کہ خیبر پختونخوا میں دیگر جماعتوں کو نظرانداز کرکے براستہ گورنر ہائوس صوبے پرسیاسی غلبہ کی جو مساعی جاری ہیں اس کے ردعمل کا بھی کوئی احساس نہیں قائد جمعیت کو مرکزی اور صوبائی دونوں سطحوں پر ان کے جثہ سے بڑھ کر حصہ ملا ہے ایسے میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کا آئندہ کی ممکنہ مفاہمت اور صف بندی میں جمعیت کو شامل نہ کرنے کی سوچ کا غالب آنا اچھنبے کی بات نہیں خود مولانا فضل الرحمن کے الفاظ میں پی ڈی ایم کا ویسے بھی اختتامی اجلاس ہی باقی ہے جس کے بعد نئی سیاسی صف بندی کے لئے اصولی او اخلاقی طور پر ہر سیاسی جماعت آزاد ہو گی۔ پاکستان تحریک ا نصاف گو کہ ابتلاء کے دور سے گزر رہی ہے اور جمعیت صوبے میں بے شک طاقتور جماعت ہے لیکن اس کے باوجود اگربرابر کا مقابلہ کرنے دیا جائے تو پی ٹی آئی اس مرتبہ بھی اگر صوبے پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کے قابل نہیں بھی ہوئی تو اسے نظر انداز کرکے اقتدار حاصل کرنا اور حکومت چلانا آسان نہ ہو گا سیاسی حقیقت کتنی بھی تلخ کیوں نہ ہوں ان کا درست ادراک ہی سیاسی حقیقتوں کا تقاضا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف ہی وہ جماعت ہے جس کے اگر انتخابات تک حصے بخرے نہ ہوئے تو اس کا مقابلہ مشکل ہوگا اور اگر متوقع طور پر اس کی صفوں میں دراڑ آبھی جائے تب بھی سخت مقابلے کی پوزیشن پر اس کے باوجود رہنا تقریباً یقینی ہے اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں کہ کسی مقبول سیاسی جماعت کو با آسانی پوری طرح دیوارسے نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی ایسا ہونایقینی ہے ۔ تحریک انصاف بدستور سیاسی جماعتوں کے لئے بڑا خطرہ اور چیلنج ہے سیاسی میدان میں مقابلہ کرتے ہوئے اس کی عوامی حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ بہتر ہوگا کہ صوبے کی حد تک کم از کم سیاسی رواداری قائم کی جائے اور شفاف طریقے سے انتخابات میں حصہ لے کر عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے اور ان کا فیصلہ تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔سیاسی میدان میںشفاف طریقے سے مقابلہ اور کامیابی ہر جمہوری جماعت کا مطمع نظر ہونا چاہئے اور بلاوجہ کے دعوئوں کی بجائے اس امر کی سنجیدہ کوشش کی جانی چاہئے جس کے نتیجے میں عوام کی حمایت کا حصول ممکن ہو اور سیاسی ہم آہنگی بھی متاثر نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی