خیبر پختونخوادہشت گردوں کے نشانے پر

خیبرپختونخوا میں خودکش حملوں سمیت دہشتگردی کی وارداتوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔ منگل کودوپہر کے بعد حیات آبادفیز6میں ایف سی کی گاڑی کوخودکش حملہ آورنے نشانہ بنایا ۔اس واقعہ کے بعد بدھ کی رات تقریبا 12بجے ریگی ماڈل ٹائون کے انٹری چیک پوائنٹ پر موجود پولیس اہلکاروں کو نامعلوم دہشتگردوں نے نشانہ بنایاگیا جبکہ سربند میں واقع ریاض شہید پولیس چوکی پرگزشتہ رات دہشت گردوں کا حملہ پولیس نے ہوشیاری سے ناکام بنایا ۔آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق صوبے میں1لاکھ 26 ہزارپولیس نفری ہے تاہم نفری سے زیادہ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔خیبر پختونخوا میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے تسلسل سے پیش آنے والے واقعات اس امر پر دال ہے کہ عسکریت پسند اب بھی ملک کے اندر متعدد محاذوں اور مقامات پر مربوط حملے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوئے ایک ہی ہفتے میں حملوں کی مسلسل نوعیت عسکریت پسندوں کی حملہ کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کے لئے خطرات میں خاص طور پر اضافہ ہوا ہے عسکریت پسندی کے گزشتہ دوراور اس بار کی دہشت گردی کی لہرمیں البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ ٹی ٹی پی اب عوامی مقامات جیسے آسان اہداف کو پہلے کی طرح نشانہ نہیں بناتی اور دہشت گردی کی اس نوعیت سے وہ تائب ہو چکی ہے اور اب ان کا نشانہ وردی پوش سیکورٹی اہلکار ہیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کے جاری کردہ اعداد و شمار سے خوفناک صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے سال کی پہلی ششماہی کے دوران ملک بھر میں 389 افراد کی جانیں ضائع ہوئیںاور اب روزانہ کی بنیاد پر اس میں اضافہ ہو رہا ہے ان اعداد و شمار کے جائزے کے بعد اس ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے کہ بڑھتے ہوئے خطرے سے موثر انداز سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی کے اقدامات میں کافی سے زیادہ اضافہ کیا جائے صوبائی دارالحکومت کی حد تک جاری حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حیرت انگیز طور پر سیکورٹی عملے کی تعداد اور ان کی تعیناتی و چھان بین کا عمل ضرورت سے کہیں کم نظر آتا ہے آئے روز حملوں میں اضافے کا تقاضا ہے کہ کمزور اور مضافاتی چوکیوں اور حساس مقامات پر کمزور چوکیوں کو مضبوط اور نفری میں اضافہ کیا جائے پولیس کے ساتھ ساتھ ایف سی کے دستے بھی تعینات کئے جائیں دہشت گردی کی ا ختیار کردہ نئی حکمت عملی سے مقابلے کا بھی تقاضا یہی ہے کہ ان کو ان کے اہداف سے دورہی روکا جائے ایسا تبھی ہو سکے گی جب اس کی پیشگی تیاری ہو گی عین موقع پر فوری کمک پر حملے کے لئے جدید ترین ہتھیاروں اور رات میں دیکھے جانے والے آلات کے باعث خطرات بڑھتے جارہے ہیں ایسے میں دور سے گھیرا ڈالنے کے لئے گھات لگائے بغیر خطرات کامقابلہ مشکل ہوتا ہے ایسے میں اندرونی طور پر دفاعی صلاحیت کو بڑھانا ہی بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے ۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے حملوں میں حالیہ اضافہ معاشرے کے تمام طبقات سے اجتماعی عزم و حوصلہ کابھی متقاضی ہے عوام کو ایک مرتبہ پھر عسکریت پسندی اور دہشتگردی کی گزری ہوئی بدترین دہشت گردی کے واقعات کے دنوں کی طرح احتیاط اور عزم دونوں کے لئے ہر وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے اہل وطن کوعسکریت پسندوں کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔دہشت گردی کے حالیہ نیٹ ورک کی بیخ کنی کے لئے حساس اداروں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں بہرحال ان کی کارکردگی پرسوال اس لئے نہیں اٹھایا جاسکتا کہ وہ پس پردہ ہر وقت اور سارا سال اور وقت متحرک رہتے ہیں جن کی ہمیں خبر نہیں ہوتی ۔ باڑہ تحصیل کمپائونڈ کے حملے سے قبل ہی ان کیجانب سے تھریٹ الرٹ جاری ہونا اس امر پر دال ہے کہ وہ مستعدی سے کام کر رہے ہیںدہشت گردی کی حالیہ لہر کے متقاضی اور بین الاقوامی دونوں کرداروں اور ان کے پس پردہ مقاصد کو سمجھنا مشکل نہیں خاص طور پر ایک ایسے وقت جب پاکستان افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان زمینی ریل رابطے اور اسے بالاخر یورپ سے ملانے نیز پاک ایران تعاون میں اضافہ کے علاوہ بڑے اور طاقتور علاقائی ممالک کے درمیان روابط اور خطے کے چھوٹے ممالک پر اس کے مثبت معاشی و تجارتی اثرات و تعاون کی راہیں کھل جانے کے مواقع وہ حالات ہیں جو دہشت گردی کے عالمی کھلاڑیوں کے لئے تشویش اور اس طرف متوجہ ہونے کا باعث ہیں صورتحال کو ناکام بنانے کے لئے افغانستان کی حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا خود ان کے اپنے مفادمیں ہوگا تاکہ سرحد کے اس پار ہونے والے واقعات کی طرح وہاں بھی اس طرح کے واقعات شروع نہ ہوں غلط فہمی کا باعث عوامل سے احتراز کے لئے علاقائی ممالک کا قریبی رابطہ پیہم اور مشاورت ناگزیر ہے۔

مزید پڑھیں:  آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت