گجرات سے منی پور تک ایک ہی کہانی

عین اس وقت جب بھارت چندرایان تھری کے نام سے اپنا خلائی مشن چاند کے تاریک گوشوں کوبھیجنے کی تیاریاں مکمل کر رہا تھا اور دنیا کو اپنا ترقی پذیری کی طرف گامزن چہرہ متعارف کرانے کی راہ پر بگ ٹٹ دوڑ رہا تھا تو اس کی شمالی مشرقی ریاست منی پور میں خواتین کی آبروریزی کے بعد ان کی برہنہ پریڈ منعقد کرائی جا رہی تھی۔ بھارتی نخوت چندرایان کی صورت اوپر جا رہی تھی مگراس کے اندر موجود انسانیت پاتال کی گہرائیوں میں گڑتی چلی جا رہی تھی گویا کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی دنیا کے سامنے دو بھارت ہیں، منی پور بھارت کی شمال مشرقی پہاڑی ریاست ہے جہاں قبائل کے درمیان ایک کشمکش چلی آرہی ہے، گزشتہ دوماہ سے منی پور جل رہا ہے اور اس دوران ایک ایسا واقعہ بھی رونما ہوا جس نے بھارت کے سیکولر سسٹم کے منہ سے نقاب اُتار پھینکا ہے، اس کی باز گشت بھارتی پارلیمنٹ میں سنائی دے رہی ہے اور منی پور منی پور کی آوازوں سے پارلیمنٹ کے ایوان لرزنے کے بعد نریندر مودی کو لب کشائی پر مجبور ہونا پڑا ان کا کہنا تھا منی پور واقعہ سے ایک سو چالیس کروڑ بھارتی شرمندہ ہیں، منی پور کی کشمکش کے دوران ایک ہندو قبیلے کے افراد نے عیسائی کوکی قبیلے کی دو خواتین کو پولیس سٹیشن سے نکالا۔ پولیس نے بہ رضا و رغبت انہیں ہجوم کے حوالے کیا اور ہجوم نے ان عورتوں کی برہنہ پریڈ کرائی اور ان میں سے ایک عورت کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ انہی میں ایک عورت کا انیس سالہ بھائی بھی اس وقت ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوا جب وہ اپنی اکیس سالہ بہن کو عصمت دری سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا، یہ دو خواتین ایک گروپ کے ساتھ جان بچانے کے لئے قریبی جنگلات کی طرف بھاگ نکلی تھیں مگر ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور بعد میں پولیس نے انہیں گرفتار کیا، جب
ہجوم نے پولیس سٹیشن پر دھاوا بولا تو پولیس نے ان خواتین کو ہجوم کے حوالے کر کے تماشائی کا کردار اپنالیا، یہ مئی کا واقعہ ہے اور جب اس واقعہ پر کارروائی کے لئے پولیس سے رجوع کیا گیا تو پولیس نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا یہاں تک کہ دوماہ بعد اس تشدد کی شرمناک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو بھارت میں ایک بھونچال سا آگیا، سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے اس پر ہنگامہ شروع کیا۔ منی پور میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور بی جے پی نے منی پور میں کانگریس اورکمونسٹوں کو شکست دینے کے لئے بندوق بردار علیحدگی پسندوں سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ انہی کی مدد سے الیکشن جیتا گیا اور اب انہی کی مدد سے عوام پر اپنا دبدبہ قائم کیا جا رہا ہے۔ وڈیو وائرل ہونے کے بعد بھارت میں عوامی سطح پر ایک بھونچال سا آگیا اور اس میں بھی انسانی ہمدردی سے زیادہ عالمی سطح پر بدنامی کے خوف کا عنصر نمایاں تھا۔ ظاہر ہے نریندر مودی نے بیرونی دنیا میں چمکتے دمکتے بھارت کی تصویر پیش کر رکھی ہے اور سسٹم کے اندر موجود متعصبانہ رویئے اور حرکات بھارت کے اس امیج کو برباد کر رہی ہیں۔ دلی خواتین کمیشن کی سربراہ سواتی مالیوال نے کہا ہے کہ اس واقعہ نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے انسانیت کے ضمیر پر داغ لگ گیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر نے حکومت کو کہا ہے کہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں بصورت دیگر عدالت خود کارروائی کرنے پر مجبور ہو گی، ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو تشدد کے ارتکاب کیلئے استعمال کرنا ایک دستوری جمہوریت میں ناقابل قبول ہے، بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہنگامہ آرائی ہوتی رہی اور نریندرمودی سے ایوان کے اندر اس مسئلے پر بیان دینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ نریندر مودی نے ایوان کے اندر بیان دینے کی بجائے باہر ہی میڈیا سے بات چیت پر اکتفا کیا۔ مسلمان رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ پندرہ سالہ لڑکا چالیس سالہ خاتون کا ریپ کرتا ہے، منی پور میں اب تک120 افراد ہلاک اور پچاس ہزار سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس دوران 1700مکانات اور250گرجا گھر جلائے جا چکے ہیں۔ منی پور کے ان واقعات اور خواتین کی برہنہ پریڈ جیسی شرمناک حرکت کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ متاثر افراد نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہجوم کی سرپرستی کرتی رہی۔ یہ گجرات کا ایکشن ری پلے ہے جہاں پانچ ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا اور متاثرہ افراد نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے بلوائیوں کو روکنے کی بجائے سہولت کارکا کردار ادا کیا ۔ یہ رویہ اس لئے اپنایا گیا کہ گجرات میں قتل اور تشدد کا نشانہ بننے والے مسلمان تھے اور بلوائیوں کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ اقلیتوں کے خلاف اقدامات اور فسادات تو بھارت کا معمول رہا ہے کہ آزادی کے بعد سے نوے کی دہائی تک بھارت میں مسلم کش فسادات کی تعداد چھتیس ہزار بتائی جاتی تھی۔ ان فسادات کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ریاست اور انتظامیہ مظلوموں کی مدد کی بجائے ظالموں کی مددگار اور سرپرست بن جاتی ہے اور صرف مذہب کی بنیاد پر یہ تفریق روا رکھی جاتی ہے۔ گجرات کا مائنڈ سیٹ اب پورے بھارت میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ منی پور کی طرح گجرات میں خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی اور خوف اور دبدبے کی اس مہم میں خواتین کو ہتھیار کے طو رپر استعمال کیا گیا تھا۔ جب ریاست عوام کے درمیان رنگ ونسل اور مذہب و مسلک کی بنیاد پر یوں تفریق کا رویہ اپنائے تو پھر ایسی ریاست کا یہ رویہ اسے گھن کی طرح اندر سے ہی چاٹ کھانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ایسی ریاست کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ شاید یہی وہ بات تھی جو امریکہ کے سابق صدر اوباما نے عین اس وقت بھارتی قیادت کو سمجھانے کی کوشش کی تھی جب وائٹ ہائوس میں نریندر مودی کا پرتپاک استقبال کیا جا رہا تھا۔ اوباما نے کہا تھا کہ اگر بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہ ہوا تو بھارت تقسیم کا شکار ہو سکتا ہے، اس بیان پر بھارت میں صف ماتم بچھ گئی تھی مگر یہ حقیقت تھی کیونکہ فسادات اور تصادم کی ہر کہانی میںریاست ایک فریق کا ساتھ دینے کا رویہ جڑ پکڑ چکا ہے اور کہانی میں ایک فریق مسلمان ہو یا عیسائی مگر ریاست ہر جگہ ہندو کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور جب سانحہ رونما ہوتا ہے اور عوامی اور بین الاقوامی دبائو پڑتا ہے تو ریاست عوام کی اشک شوئی کے لئے شلجموں سے مٹی جھاڑنے لگتی ہے مگر اس وقت تک ایک فریق کا نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ گجرات کے بعد منی پور میں یہی تلخ حقیقت پوری طرح عیاں ہو کر سامنے آئی ہے۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے