ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہیں

شنید ہے کہ بجلی بلوں پر احتجاج کے حوالے سے خواجہ سراء بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔ عام لوگ پہلے ہی سڑکوں پر بل جلائو مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں جبکہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بل تو دینا ہوگا اب اتنی مہنگائی بھی نہیں کہ ہڑتال کی جائے۔ اس حوالے سے سرکاری نکتہ نظر اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے عوامی نکتہ نظر میں جو بعدالمشرقین ہے اس کے درمیان ایک حد فاصل موجود تھی جسے خواجہ سرائوں نے پاکر دیا ہے۔ رہ گئے سیاسی رہنماء تو ایک آدھ کو چھوڑ کر جن میں بطور خاص جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور سینیٹر مشتاق احمد خان شامل ہیں باقی کی سیاسی قیادت تقریباً خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اس لئے خواجہ سرائوں کے احتجاج کے حوالے سے وہ لطیفہ یاد آگیا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران متحدہ ہندوستان کے کسی چھوٹے شہر یا گائوں میں پیش آیا تھا اور جب عام لام بندی کے اعلان کے بعد پورے برصغیر کے اندر جنگ میں حصہ لینے کیلئے لوگوں کو بھرتی کیا جانے لگا اور بلاتخصیص ہر علاقے سے لڑائی میں حصہ لینے کے قابل نوجوانوں سے لے کر قدرے بڑی عمرکے لوگوں کو بھی جنگ میں جھونکنے کے باوجود ”ہل من مزید” کی صدائیں لگائی گئیں کسی گائوں میں بھرتی کرنے والے ایک میراثی کے گھر اس کے اکلوتے لڑکے کو لینے پہنچے تو میراثن نے فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”پتر، جے معاملہ اس حد تک آگیا وے کہ ہونڑ میراثیاں نوں بھی نئیں بخشا جاریا تے فیر بادشاہ سلامت نوں آکھو کہ جرمنان نل صلح کرلو” یعنی اگر نوبت بہ ایں جارسید کہ میراثی کے بچے کو بھی جنگ کے میدان میں بھیجنے کی ضرورت آگئی ہے تو بادشاہ سے کہو کہ جرمنوں کے ساتھ صلح کرلے۔ اس لطیفے کو بجلی کے بلوں میں حالیہ بے پناہ اضافے کے تناظر میں یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر وہ سیاسی جماعتیں جو بقول نگران وزیراعظم آئی ایم ایف کی جانب سے عوام پر نہ صرف بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اضافے بلکہ پٹرول قیمتوں میں مزید اضافے یعنی فی لیٹر 60 روپے لیوی عائد کرنے سی این جی کی قیمتوں میں بڑھوتری واپڈا کی جانب سے فری یونٹس کی سہولت ختم کرنے کی مخالفت اور دیگر شعبوں یعنی گھی چینی وغیرہ وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے پر خاموشی کی بکل اوڑھے منقار زیر پر کی کیفیت سے دوچار ہیں تو ان سیاسی جماعتوں اور قائدین سے خواجہ سراء ہی اچھے جن کو کم از کم اتنا احساس تو ہے کہ عوام کے دکھ درد میں شریک ہوکر آواز بلند کررہے ہیں اور اس چڑیا کا کردار ادا کر رہے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں (اسرائیلیات کی رو سے) اس الائو پر جس میں ابراہیم کو جھونگ کر نمرود جھلسا دینے پر تلا بیٹھا تھا اور وہ چڑیا اپنی چونچ میں ایک ایک قطرہ پانی لاکر اس الاؤ کو بجھانے میں مصروف تھی۔ اب ظاہر ہے ایک ننھی سی چڑیا کے ایک ایک قطرہ پانی سے اتنا بڑا الائو کیسے بجھ سکتا تھا۔ مگر بقول شخصے فکر ہر کس بہ قدر ہمت اوست گویا یہ جو خواجہ سراء بھی احتجاج میں حصہ ڈال رہے ہیں اس سے ”بل تو دینا ہوگا” کے بیانیئے پر کیا اثر پڑسکتا ہے مگر جو سیاسی قیادت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اس کیلئے یہ صورتحال سوچ کے کئی در ضرور وا کرتی ہے یعنی عمومی طور پر معاشرے کا ایک کمزور سمجھا جانے والا نہایت مختصر طبقہ عوامی احتجاج کا حصہ بن کر متعلقہ لوگوں کو ”شرم تم کو مگر نہیں آتی” کا درس دے تو رہا ہے۔ مظفروارثی نے کیا خوب کہا تھا کہ
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
اور اس غزل کا مطلع کمال کا ہے جس سے معروضی صورتحال کی وضاحت نہایت خوبصورت انداز سے سامنے آرہی ہے کہ
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
اب ذرا اس ”مجرمانہ خاموشی” پر غور کریں تو 400 یونٹس بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئے ریلیف لینے کو جس طرح اس عالمی مہاجن (آئی ایم ایف) سے اجازت لینے یسے مشروط کردیا گیا ہے اس نے ”ہونٹوں کی خموشی کی سند” کے مفہوم کو واضح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جس پر حبیب جالب نے بہت پہلے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
بل دینے میں بھلا کس کو تامل ہوسکتا ہے( ماسوائے مراعات یافتہ طبقات اور مفت بجلی استعمال کرنے والوں کے) مگر مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بل ادائیگی پر کوئی تیار نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جب آمدن سے کہیں زیادہ بل آئے اور قابل برداشت کے دائر سے باہر ہوجائے تو پھر لوگ مبینہ طور پر خودکشیاں کرنے کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں؟آئی ایم ایف تو پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے وہ تو یہی چاہتا ہے کہ مہنگائی اس قدر بڑھ جائے کہ لوگ یا تو خودکشیاں کریں یا پھر خدانخواستہ ”بغاوت” پر اتر آئیں تاکہ ملک میں ایسی صورتحال پیدا ہو جو ”ڈیفالٹ کے ہولناک گڑھے” میں گرا کر ہمیں مجبور کردے کہ ہم اپنے ”قیمتی اثاثے” عالمی طاقتوں کی خواہش کے مطابق سرنڈر کرنے پر تیار ہوجائیں اور ہماری دشمن قوتیں عالمی سطح پر جشن مناکر ہمیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکے نہال ہوں۔مٹھائیاں بانٹیں اور پھر ہمارے وجود پر کئی سوال اٹھنا شروع ہوجائیں۔
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بڑی سوچ کے الجھائی ہے
اس الجھاوے میں خود ہمارے ہی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں جو بھی آیا اس نے ملک و قوم کو ”ترقی کی راہ” کا بہلاوا دیا مگر اندر ہی اندر ہمیں ”تباہی اور بربادی” کے گہرے گھائو لگاتا رہا ہم نے ہر ایک کو نجات دہندہ سمجھا مگر مسلط ہونے والوں نے ہماری جڑوں میں بارودی سرنگیں بچھا کر ایسی کیفیت سے دوچار کیا جو موجودہ تباہ کن صورتحال پر منتج ہوا اور صورتحال رانا سعید دوشی کے بقول کچھ یوں ہے کہ
کہاں کسی کی حمایت میں مارا جائوں گا
میں کم شناس مروت میں مارا جائوں گا
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میںمارا جائوں گا
میں ورغلایا ہوا لڑ رہاہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوق شہادت میں مارا جائوں گا
بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
کسی بھی دوسری صورت میں مارا جائوں گا

مزید پڑھیں:  سخت گرمی اور بدترین لوڈ شیڈنگ