مہنگائی !!!چھوٹے لوگوں کا بڑا مسئلہ

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مہنگائی ضرورہے مگر اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں کہ پہیہ جام ہڑتال کی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا بل تو دینا ہوگا جو معاہدے ہوئے ہیں وہ بہر صورت پورے کریں گے ۔جب نگران وزیر اعظم یہ بات کررہے تھے تو ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعے عوام پر ایک اور آسمانی بجلی گرائی جا رہی تھی۔پٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں اٹھارہ روپے چوالیس پیسے کا اضافہ کر دیا گیا۔جس کے بعد پٹرول کی قیمت 305روپے 36پیسے او ر ڈیزل کی قیمت314روپے84پیسے فی لیٹر ہو کر رہ گئی ۔ابھی لوگ بجلی کی قیمتوں پر ہی دُہائیاں دے رہے تھے کہ حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ملک کو ماتم کدہ بنا دیا ۔ یوں لگتا ہے کہ ملک کے معاشی مسئلے کا حل مہنگائی میں اضافے کو بنادیا گیا ہے ۔اس طرح مہنگائی کا سارا بوجھ پاکستان کے عام آدمی کے کندھوں پر منتقل ہوتا ہے ۔یہ وہ عام آدمی ہے جس کا ملک کی معیشت بگاڑنے اور ملک کو اس حال تک پہنچانے میں کوئی کردار نہیں ۔یوں پاکستان کا عام آدمی جرم ِ بے گناہی کا شکار ہو رہا ہے ۔یہ کیسی حکومت اور کیسے منصوبہ ساز ہیں کہ جن کے پاس ملک کے اقتصادی مسئلے کا مہنگائی کے سوا کو ئی حل نہیں ۔ملک کے معاشی مسائل کا متبادل حل موجود ہے مگر پاکستان کو اس حل کی طرف جانے نہیںدیا جارہا ۔وہ حل ایک ایسی جادونگری ہے جہاں قدم رکھنے والا پتھر کا ہو کر رہ جاتا ہے ۔عمران خان اس کی تازہ مثال ہیں ۔جو اس حل کی جادونگری میں قدم رکھنے کے باعث اٹک جیل کی ایک تن تاریک کوٹھڑی میں پڑے ہوئے ہیں۔ملک میں آئی ایم ایف اور امریکہ کے کنٹرول کو تھوڑا سا مودبانہ انداز میں جھٹک کر معاشی بربادی کا حل نکا لا جاسکتا ہے ۔عمران خان نے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر افغانستان کے ساتھ معاملات کو ٹھیک کرکے اور
روس کے ساتھ تیل او رگندم کے معاہدات کرکے آئی ایم ایف کے متبادل راستوں پر چلنے کی کوشش کی تھی اور یہی موجود ہ دلدل سے نکلنے کا حل تھا ۔آئی ایم ایف کے پروگراموں کے چکروں میں پڑے رہنے سے اگلے پچاس سال میں بھی پاکستان کی معیشت سنبھلنے کا امکان نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کو سیاسی ایجنڈا پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو بحال اور ٹھیک کرنا مقصود نہیں بلکہ پاکستان کی کلائی مروڑنا مقصد ہے سو آئی ایم ایف پاکستان کی کلائی مروڑ رہا ہے اور پاکستانیوں کی چیخیں ساتویں آسمان تک جا رہی ہیں۔پاکستان جب امریکہ کے مدار اور اندھی اطاعت کے حصار سے نکلنے لگا تھا تو مغربی ذرائع ابلاغ یہی بتا رہے تھے کہ مغرب کے پاس پاکستان کی رسی کھینچنے کا ایک طریقہ باقی ہے اور وہ ہے آئی ایم ایف کے ذریعے اس پر سختی ۔پاکستان اس جھٹکے کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔بالخصوص بگرام ائر بیس خالی کرنے کے بعد مغربی میڈیا کے پاس یہ ایک متبادل حل تھا کہ پاکستان کی معیشت کو اس حد تک خراب کیا جائے کہ وہ گھٹنوں پر آجائے ۔آج یہ حکمت عملی کامیاب رہی ہے ۔اب لوگ برملا پوچھتے ہیں کہ عمران خان کو مہنگائی کی وجہ سے پی ڈی ایم نے ہٹایا تھا مگر پونے دوسال کا عرصہ ہوگیا وہ مہنگائی کیا ہوئی ؟وہ تواوپر ہی اوپر جا رہی ہے ۔اسحاق ڈار کی مسیحائی کو کس کی نظر لگ گئی ؟وہ غیر مؤثر ہو کر کیوں رہ گئے ؟تجربہ کاری اور پُرکاری کے دعوؤں کے مینار کیوں زمیں بوس ہوئے ؟۔اب میاں نوازشریف کی تشریف آوری کو ہر مسئلے کا حل بتایا جا رہا ہے ۔پہلے اسحاق ڈار کو اسی طرح ناگزیر اعظم بنا کر پیش کیا جا رہا تھا ۔اسحاق ڈار نوازشریف کی معاشی پالیسی کے مدارالمہام تھے ۔وہ اپنا جادو دکھاتے تو شاید عمران خان کی مقبولیت پر قابو پایا جا سکتا تھا مگر میاں نوازشریف کی معاشی پالیسی کے یہ مدارالمہام ان کی نیک تمنائوں کے باوجود ناکام ہو گئے ۔اب ان کے ذخیرے میںاسحاق ڈار سے بڑا معاشی میزائل کونسا ہے جسے وہ آزمانا چاہیںگے ؟اس کا مطلب ہے کہ عمران خان نے ٹھیک ہی متنبہ کیا تھا کہ انہیں ہٹاکر بھی معیشت سنبھل نہیں پائے گی اور آج ایسا ہی ہورہا ہے ۔ایسے نگران وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ پہیہ جام ہڑتال کی جائے ۔پاکستان میں اس وقت دو طبقات ہیں ایک مراعات یافتہ طبقہ ہے جس کے آگے ریاست کے وسائل دست بستہ کھڑے ہیں۔یوں لگتا ہے بابائے قوم نے یہ ملک اسی طبقے کی منفعت اور عیاشیوں کے لئے بنایا تھا اور دوسرا طبقہ عام آدمی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ۔جس کا جی کرے اسی پر مہنگائی کا تازیانہ برساتا ہے۔مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہو مراعات یافتہ اور بالادست طبقے کو فرق نہیں پڑتا ۔اس کے لئے ڈالر ایک ہزار روپے کا بھی ہو اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے کیونکہ مراعات یافتہ کلاس کی دولت مغربی بینکوں میں ہے اور روپے کی ناقدری سے ان کی جائیدادوں کی قدر وقیمت بڑھا جاتی ہے ۔اس لئے واقعی ایک طبقے کو مہنگائی سے کچھ فرق پڑتا ہے نہ ان کے لئے یہ کوئی بڑا مسئلہ ہوتا ہے ۔یہ طبقہ بلاشبہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ پہیہ جام کیا جائے ۔بڑے لوگوں کے لئے مہنگائی ایک چھوٹا مسئلہ ہے مگر اصل مسئلہ چھوٹے لوگوں کا ہے جن کے لئے مہنگائی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔دیہاڑی دار مزدور ،پرائیویٹ تنخواہ دار اور سفید پوش طبقے کے لئے مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔اس طرح پاکستان کی دوکلاسز کے درمیان حالات کا ہی نہیں سوچ وفکر کا گہرا تضاد آگیا ہے۔مراعات یافتہ طبقے کے لئے مہنگائی مسئلہ نہیں تو پسے ہوئے طبقے کے لئے مہنگائی زندگی او رموت کا مسئلہ ہے اور آئے روز لوگ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہوکر نہ صرف خودکشیاں کر رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ مار کر سکون حاصل کر تے ہیں ۔ گویا کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں کہ اس کے لئے پہیہ جام ہڑتالیں کی جائیں ۔اگر واقعی مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تو پھر لوگ اس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اور اس کے آگے ہتھیار ڈال کر جانیں کیوں دے رہے ہیں؟ ٹھیک ہے اپنی دولت پاؤنڈز میں رکھنے والوں کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں مگر ملک کی اکثریت کے لئے یہ مسئلہ ہے اور اس قدر بڑا مسئلہ ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر اپنی زندگی کو ہی بے معنی سمجھتے ہیں ۔یہ تضاد ملک کے سوشل فیبرک اور حالات کے لئے اچھا نہیں ۔یہ ایک نئی طبقاتی تقسیم کی طرف قوم کا سفر ہے اور وہ ہے امیر اور غریب ،ڈالروں میں دولت رکھنے والا اور پھٹی ہوئی جیب میں روپے رکھنے والا ،دنیا کے بینکوںکے لاکروں میں مال رکھنے والا اور نقد جاں سمیت سب کچھ اس ملک میں رکھنے والا ۔ اس وقت تک تو ریاست کے نزدیک مسئلہ اول کچھ اور ہے اور ریاست ڈیڑھ سال سے اسی مسئلے کو مینج کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔اس کوشش میں اصل مسئلہ اول یعنی معیشت کا کباڑہ نکل رہا ہے ۔یوں نہ ملک کو سیاسی استحکام مل رہا ہے نہ معاشی حالات میں کوئی بہتری آتی ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ دہشت گردی کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاک افغان بڑھتی کشیدگی