تیری آنکھوں کی جھیلوں میں ڈوبیں ابھر نہ پائیں

کرکٹ اور شیروانی کا جوڑ بلکہ اگر زیادہ وضاحت سے بات کی جائے تو اسے کرکٹ اور شیروانی کے”گٹھ جوڑ” سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے اب بہت پرانا ہوتا جارہا ہے ‘ ایک وہ بھی وقت تھا جب کرکٹ کا عالمی تاج اپنے سر سجانے کے بعد پاکستان کی ٹیم کے کھلاڑیوں کی ملک کے ا ندر آئو بھگت اس سطح پر پہنچی کہ ”کچھ حلقوں نے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو”شیروانی” میں ملبوس کرکے اسے قوم پر مسلط کردیا اور پھر قوم کی جو بینڈ بجی تو صورتحال آج دنیا کے سامنے ہے ‘ اس حوالے سے تفصیل میں ہم نہیں جانا چاہتے کہ اگرحقائق(جو ویسے بھی قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے) سامنے لانے کی کوشش کی جائے تو بہت سی جبینوں پر شکنیں ابھرآتی ہیں ‘ اس لئے اس صورتحال سے بچتے ہوئے بات کوآگے بڑھاتے ہیں اور کرکٹ اور شیروانی کے باہم تعلق کی ایک اور خبرسے رجوع کرلیتے ہیں جس میں صرف بینڈ بجنے کی بات نہیں آتی بلکہ سیدھے سیدھے معاملہ ”بینڈ باجا’ بارات” سے جڑتی دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ قومی ٹیم کے ایک اور کپتان نے بھی ”شیروانی”خرید لی ہے ‘بلکہ اس شیروانی کی قیمت بھی حیران کر دینے والی ہے یعنی یہ شیروانی سات لاکھ روپے کی خطیر رقم کے عوض بھارت کے ایک مشہور ڈیزائنر سبباساچی سے بنوائی ہے ‘ خبر میں اس بات کی وضاحت تو نہیں کی گئی کہ یہ رقم پاکستانی کرنسی کے مطابق ہے یا پھر بھارتی روپوں میں ادائیگی کی گئی ہے زیادہ قیاس تو یہی کیا جاسکتا ہے کہ سات لاکھ کی یہ رقم بھارتی روپوں کے مطابق ہو گی یوں اسے پاکستانی روپوں میں تبدیل کیاجائے تو یقینا دس بارہ لاکھ روپے بن جاتے ہیں ‘ یہ تو اچھا ہے کہ معاملہ سات لاکھ بھارتی روپوں میں ہی نمٹ گیا ورنہ پاکستان میں توسات لاکھ کے نام سے ایک فلم بھی بنی تھی جس میں صبیحہ خانم ہیروئن اور سنتوش کمارنے بطور ہیرو کام کیاتھا ‘ اس کی کہانی میں صرف سات لاکھ نقد کی ہی بات نہیں کی گئی تھی ‘ سات لاکھ کی جائیداد ‘ سات لاکھ کے ہیرے جواہرات ‘ سات لاکھ کی گاڑیاں وغیرہ وغیرہ بھی شامل تھے ‘ بہرحال ایک ایسے موقع پرجب بابر الیون کو بھارت میں ورلڈ کپ کے دوران سخت آزمائش کا سامنا ہے اور جس کے حوالے سے ایک ٹک ٹاکر حریم شاہ نے بھارتی کرکٹ کی ایک اہم شخصیت انڈین کرکٹ کونسل کے سیکرٹری جنرل جے شا پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ انہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں پر کالاجادو کرانے کے لئے ایک جادوگر کارتک چکروتی کی خدمات حاصل کی ہیں اسی وجہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالت خراب ہے اور وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے آگے ٹکنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ‘ وہ جوکہتے ہیں کہ ”دا خوار ملا پہ بانگ سوک کلمہ نہ وائی” یعنی غریب ملا کی اذان پر کوئی کلمہ بھی پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتا ‘ تو حریم شاہ کی بات پر کسی نے بھی توجہ کی تکلیف گوارا نہیں کی اور اس کی بات کوہوا میں اڑا دیا ۔ حالانکہ وہ پشتو ضرب المثل کے مطابق ”خوار ملا” کے لقب پر بھی پوری نہیں اترتی اور ٹک ٹاکر کے طورپر ان کی ایک جہان رسیا اور معتقد ہے’ پھر بھی کسی نے ان کے دعوے کو اہمیت نہیں دی حالانکہ بھارت اور سری لنکا کے گزشتہ روز کے میچ میں بھارت نے جس طرح کامیابی حاصل کی ہے اور صرف 55 رنز دے کر سری لنکا کی لنکا ڈھا دی اس سے حریم شاہ کے الزام میں صداقت کا پہلو ہی دکھائی دے رہا ہے کیونکہ سری لنکا کی ٹیم اتنی بھی کمزور نہیں ہے کہ اس بری طرح شکست کھا لے یقینا اس میں بھی کسی”کالے جادو” کی کارستانی نظر آتی ہے ‘ اور جب بات شادی کے لئے کسی بھارتی ڈیزائنر سے شیروانی سلوانے تک جا پہنچے تو ممکن ہے کہ اس شیروانی پر بھی بھارتی کرکٹ کونسل کے سیکرٹری جنرل جے شا نے کوئی کالا جادو کوئی جنتر منتر کروایا ہو اور شیروانی کی فٹنگ کے دوران بابر اعظم کے شیروانی پہننے سے یہ کالا جادو اس پر اثرانداز ہونا شروع ہوچکا ہو ‘ اب نتیجہ سب کے سامنے ہے ‘ گزشتہ کالم جس میں حریم شاہ کے کالے جادو کے الزام کا ذکر تھا ہم نے اس کے حوالے سے بھارت ہی کے ایک مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کے ایک شعر کا حوالہ دیا تھا جس میں ”کھتئی آنکھوں میں جنتر منتر”کا ذکر تھا ‘ مگر تازہ خبر کے حوالے سے راحت اندوری ہی کی زمین میں کہی ہوئی اپنی غزل کا ایک شعر آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں جو صورتحال کے تناظر کو واضح کرنے میں معاون ہو سکتا ہے ۔
تیری آنکھوں کی جھیلوں میں ڈوبیں ابھر نہ پائیں
دریا وریا ‘ ساگر واگر ‘ سات سمندر سب
مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ڈیزائنر سبیا ساچی(جو نام کے حوالے سے خاتون لگتی ہے) نے بابر اعظم کا ماپ(ناپ)لیتے وقت اس کی آنکھوں میں دیکھاہوگا اور ممکن ہے کہ انہی لمحات میں اس نے بابر اعظم کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اسے اپنی آنکھوں کی جھیلوں میں ڈوبنے اور جنتر منتر کے سحر میں مبتلا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو ‘ جس کے بعد بابر اعظم سے ایسی غلطیاں سرزد ہو گئی ہوں جن کی وجہ سے پاکستانی ٹیم پرحالات نے اثر ڈال دیا ہو۔ تاہم اگرایسا ہے تو قوم کودعا مانگنی چاہئے کہ بابر اعظم کی شیروانی آگے چل کر قوم کے لئے کسی اور امتحان کا باعث نہ بن سکے ‘ بقول عطاء الحق قاسمی
یہ بیوپاری عقیدوں کے ‘پجاری ہیں فقط زر کے
یہ مندر’ مسجدیں ‘ گرجے ‘ گھپائیں بیچ دیتے ہیں
شنید ہے کہ پشاور کی سڑکوں پرمن پسند اشتہارات اور پیغامات لکھنے کی کھلی چھٹی دیدی گئی ہے ‘ ضلعی انتظامیہ نے چندمقامات پر دیواروں پر خوبصورت نقش و نگار بنا دیئے جس کا مقصد شہر کی خوبصورتی تھا تاکہ دنیا کے کئی ممالک میں اختیار کردہ حکمت عملی کی طرز پر پشاور کو بھی جاذب نظر بنا کر سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنا دیاجائے لیکن چند مقامات کے علاوہ باقی شہر کووال چاکنگ مافیا کے سپرد کرکے انہیں کھل کھیلنے کی اجازت دیدی ہے ‘ ضلعی انتظامیہ پشاور اس وال چاکنگ مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے کیونکہ وال چاکنگ مافیا نے جس بری طرح بچی ہوئی دیواروں کوداغدار کرنا شروع کردیا ہے اس سے یوں لگتا ہے جیسے ماہر مصور کی کوئی خوبصورت تصویر کے مقابلے میں ناتجربہ کار خود ساختہ مصوروں نے کسی کینوس پر آڑھی ترچھی لکیریں مار کرتجریدی آرٹ کے نمونے بنانا شروع کر دیئے ہیں ‘ جس کے بارے میں ایک مشہور شاعر سید محمد جعفری مرحوم نے کیا خوب کہا تھا کہ
جس کوسمجھے تھے انناس
وہ عورت نکلی
معاملہ صرف دیواروں پر وال چاکنگ تک محدود ہو تو پھربھی کوئی بات ہے مگر معاملہ بہت آگے چلا گیا ہے اور اب سڑکوں پر بھی اشتہارات اور پیغامات لکھے جارہے ہیں اس پر ہمیں اپنے لڑکپن کے دور میں اسی قسم کی اشتہار بازی یاد آگئی ‘ اس دور میں پشاور کے اندر اور مضافات میں اکا دکا موٹر کاریں ہی چلتی تھیں ‘ لوگ زیادہ تر تانگے کنی چی موٹرسائیکلیں اور سائیکلوں کا استعمال کرتے تھے ‘ کراچی کے ایک صاحب نے گنجے بالوں کا علاج ”دریافت” کرکے دوا تیار کر لی اور اس کی اشتہار بازی کے لئے پشاور شہر سے صدر تک سڑکوں پر راتوں رات اشتہار لکھوا کر اگلے ڈیڑھ دوہفتوں میں لاکھ روپے (اس دور کے لاکھوں جوآج کے کروڑوں بن جاتے ہیں) گنجوں سے بٹور کر اپنی تجوریاں بھر لی تھیں ‘ اس کے بعد وہ شخص دوربین میں بھی نظر نہیں آیا ‘ اس نے اپنی پراڈکٹ ”زیڈال” کے نام سے اس نعرے کے ساتھ مشتہر کرکے یہ نعرہ لکھوایا”زیڈال کا کمال ‘ گنج پر بال” اور ملک بھر میں لاکھوں گنجوں کی جیبوں کو خالی کردیا تھا ‘ پتہ نہیں اس وقت سڑکوں پر جو اشتہارات لکھے جارہے ہیں وہ کس بارے میں ہیں بہرحال جس نے بھی یہ آئیڈیا سوچاہے ‘ کمال کا اشتہار باز لگتا ہے ۔ بقول نواب ناطق
ناطق یہ سخن تیرا ہے تریاق پریہا
ذمباق تریہا لک ذمباق تریہا

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے