دہشتگردی کی نئی لہر

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا ہے کہ میانوالی میں پاکستان ایئر فورس کے ٹریننگ ایئر بیس پر شدت پسندوں نے حملے کی کوشش سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اسے ناکام بنا دی۔خیال رہے جمعے کو صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے پسنی سے اورماڑہ جانے والے سکیورٹی فورسز کے قافلے پر دہشت گردوں کے حملے میں 14 جوان اپنی جان سے گئے تھے۔آئی ایس پی آر نے تصدیق کی تھی کہ جمعے کو پسنی سے اورماڑہ جانے والی سکیورٹی فورسز کی دو گاڑیوں پر دہشت گردوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔دریں ا ثناء خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں 3 الگ الگ واقعات میں پاک فوج کے 3 اہلکار شہید ہوگئے جبکہ دو دہشت گرد بھی مارے گئے ۔خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی)کی جانب سے گزشتہ برس نومبر میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان میں خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں اور اوباڑہ اور پسنی میںدہشتگردی کے بعد میانوالی ٹریننگ ایئر بیس پرو دہشت گردوں کے حملے سے اس امر کاواضح اظہار ہوتا ہے کہ دشمن ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کھل کر سامنے آیا ہے جس کا مقصد وطن عزیز میں خوف کی فضاء پیدا کرنا اور خدانخواستہ پاکستان کوغیر مستحکم کرنا ہے ملک میں جاری صورتحال اور کابل سے تندو تیز بیانات کی روشنی میں صورتحال کو دیکھنے کی طرف متوجہ ہونا فطری امر ہے البتہ مخمصے کا باعث بننے والی بات یہ ہے کہ ملک بھرمیں یکے بعد دیگرے شروع ہونے والے ان واقعات کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول نہیں کی بلکہ ایک غیرمرئی تنظیم جس کے وجود اور قیام تک کاکوئی ایک بھی ثبوت نہیں ان کی جانب سے قبول کی گئی ہے قبل ازیں بھی تحریک جہاد پاکستان دہشت گردی کے مختلف واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے جس کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان سے ہی جڑے لوگ ہوسکتے ہیں اور اسی تنظیم کا دوسرا نام ہو سکتا ہے۔طالبان جن حملوں کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے وہ اس تنظیم کے نام سے قبول کرا لیتے ہیں۔ اس خطے میں کسی دوسری تنظیم کے وجود کے آثار نظر نہیں آتے اور ان علاقوں میں جس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ طریقہ بھی ٹی ٹی پی سے ہی ملتا جلتا ہے۔ اس تنظیم کے حملوں کی ذمہ داری سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کا کوئی ہمدرد گروپ ہے یا اس کا کوئی خفیہ منصوبہ ہے۔مثلا اس نے اب تک صوبہ خیبر پختوانخوا کے ضلع لکی مروت اور بلوچستان کے ژوب ڈویژن میں دو بڑے حملوں کا دعوی کیا جہاں پر تحریک طالبان کا آپریشنل نیٹ ورک موجود ہے مگر تحریک طالبان نے اس تنظیم یا اس کی کارروائیوں پر کسی تشویش یا ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ بہرحال مستبقل قریب میں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ تحریک جہاد پاکستان کی حقیقت کیا ہے کیونکہ اگریہ تحریک طالبان کی خفیہ تنظیم ہے تو یقینا یہ تعلق زیادہ عرصہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا اور یہ اگر تحریک طالبان کے اندر سے ہی کسی بغاوت یا اس کا مدمقابل کوئی نیا گروپ ہے تو وہ بھی جلد واضح ہو جائے گا۔بہرحال اس کاعقدہ کھل ہی جائے گا بہرحال قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک فرضی نام نکل آئے گا اور منظم دہشت گردی انہی عناصر ہی کی کارستانی ہے جو ایک عرصے سے برسرپیکار ہیں اور بدقسمتی سے ہمسایہ ملک افغانستان سے ان کے ڈور ہلائے جاتے ہیں اور ہدایات دی جاتی ہیں۔ قطع نظر اس بحث کے صورتحال سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر دہشت گردوں کی جانب سے منظم طریقے سے دہشت گردی کے منصوبے بنائے گئے ہیں جن میں سے کچھ پر عملدرآمد بھی سامنے آیا ہے جس کے تناظر میں ان خدشات کا اظہار بے جا نہیں کہ اس لہر میں ممکنہ طور پر کچھ دیگر وارداتوں کی بھی کوشش ہوسکتی ہے جس کے لئے پوری طرح تیار رہنے اور ملک بھر میں ایک بار پھر حفاظتی اقدامات کو دہشت گردی کی بدترین لہر کے دوران اختیار کئے گئے حفاظتی اقدامات کی سطح تک لے جانے کی ضرورت ہے ایک ایسے وقت جبکہ ملک سے غیر ملکی عناصر کی واپسی کا منظم و مربوط اور قابل اعتماد عمل شروع ہوچکا ہے اور کافی عرصے بعد عوام میں ملکی اداروں اور حکومت و ریاست کی پالیسیوں اور اقدامات کی عوام میں متفقہ اورکلی تحسین ہو رہی ہے ایسے میں دہشت گردوں کو اپنے گرد گھیرا تنگ ہونے اور پکڑے جانے کے خدشات کے باعث دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب کئے جانے کے خدشات بلاوجہ نہیں ہوسکتے جس کا سیکورٹی اداروں انٹیلی جنس پولیس اور عوام کا ہر سطح پر پہلے کی طرح سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابلہ کرنا ہے ایک جانب جہاں ملک میں دہشت گردی کی تازہ لہر تشویش کا باعث امرہے وہاں اطمینان کا باعث امر یہ ہے کہ یہ آخری مرحلہ ہو سکتا ہے جس میں بچے کھچے عناصر اپنی آخری قوت مجتمع کرکے سامنے آئے ہوں۔ جس میں اس طرح کے عناصر کی حتمی تطہیر اور ملک کو ان عناصر سے پاک ہونے کا قوی امکان ہے جس کے بعد دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے گا اور دہشت گردوں کا صفایاکیا جائے گا ساتھ ہی ایک اور اطمینان بخش امر یہ ہے کہ عوام حسب سابق اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ عوام کو اب واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ان کے خدشات و تحفظات دور کرنے کے شک و شبہ اور تحفظات سے بالاتر جوعملی اقدامات کئے جارہے ہیں وہ ملک وقوم کے مفاد میں ہیں جن کی تائید وحمایت اورتعاون ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی