کل اور آج

عمر اور تجربات کا تفاوت ہر دورمیں فطری طور پر ایک عنصر رہا ہے بزرگوں کو نوجوان نسل سے اور نوجوانوں کو بزرگوں سے کچھ گلے شکوے ہر دور میں رہے ہیں لیکن دور کبھی اتنی تیزی سے نہیں بدلاجتنا ہم اور ہمارے ہم عصروں نے دیکھا اچانک زندگی کیا سے کیا ہو گئی ٹیکنالوجی میں بدلائو طرز زندگی اور رہن سہن پر ہی غالب نہیں آیا بلکہ سوچ اور طرز زندگی بھی بدل ڈالی ایسے میں جنریشن گیپ کاجو فطری وقت تھا اس میں نصف سے بھی زیادہ کی کمی آگئی اب تو بڑی عمراور چھوٹی عمر کا فرق اس قدر سمٹ گیا ہے کہ چند سال قبل پیدا ہونے والے بچے اور بعد کے سالوں میں تولد بچوں میں وقت اور ماحول ایک ہونے کے باوجود ہم خیالی نظر نہیں آتی ایک ہی گھر میں بڑی بہن اورچھوٹی بہن بڑے بھائی اورچھوٹے بھائی کے تجربات و مشاہدات ایک جیسے نہیںرہے ۔ یہ ایک ایسا دور ہے جس میں بزرگ اور نوجوان ایک ہی چیز کو دو مختلف زوایہ نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ہر نئی نسل پچھلی نسل سے فطری طور پر مختلف سوچ رکھتی ہے ان کے نظریات سے لے کر فیشن تک سبھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو ادراک ہوتا ہے کہ ہم بھی اپنے بزرگوں سے مختلف تھے جس طرح آج کی نسل کی اکثر باتیں ہمیں پسند نہیں اسی طرح ہمیں بھی بزرگوں کی بعض باتیں پسند نہیں تھیں البتہ بعد کی کیفیت آج کی طرح اتنی زیادہ نہیں تھی بعد کی یہ کیفیت بزرگوں اور نوجوان دونوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے معاشرے میں جو ہمہ گیر تبدیلیاں آرہی ہوتی ہیں ہمیں ان کو ابتداء سے دیکھنا چاہئے حد سے زیادہ نکتہ چینی اور تنقید بھی نوجوانوں اور بزرگوں کے درمیان دوریوں کا باعث بن سکتا ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہ کیفیت بڑی حد تک پیدا بھی ہو چکی ہے اور نظر بھی آتی ہے جائزہ لیا جائے تو بے شمار تضادات نظر آئیں گی لیکن ایک بات بہرحال طے ہے کہ آج کی نوجوان نسل میں برداشت کافقدان ہے یہی وجہ ہے کہ نشے کی عاد ت میں اضافہ اور معاشرہ تشدد پسند ہوتا جارہا ہے تشدد کے واقعات کی ہر ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم اسے شعوری طور پر پسند نہ کرنے کے باوجود لاشعوری طور پر اسے دیکھنے کو پسند کرتے ہیں یہاں تک کہ کچھ کے لئے اس طرح کی تکلیف دہ ویڈیو دیکھنا ممکن ہے کسی تسکین کابھی باعث ہو اس کی وجہ نفسیاتی اثرات ہو سکتی ہیں بہرحال یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کا بہتر جائزہ ماہرین نفسیات ہی لے سکتے ہیں اور اس حوالے سے بہتر رائے دے سکتے ہیں آج کی نوجوان نسل کے تعلیمی اداروں میں تشدد اور عدم برداشت کے حوالے سے گزشتہ روز ایک تقریب میں شامل افراد سے تبادلہ خیال کا موقع ملا بلکہ خود بخود گفتگو چھڑ گئی تو ہر کسی کو اس بارے میں مشوش پایا کہ والدین کو اب اپنے بچوں سے بھی سختی سے بات کرنے سے خوف سا محسوس ہونے لگا ہے جس کی بنیادی وجہ ہی کمزور اعصاب جلد بازی کا رد عمل اور اس کے نتائج ہیں ایک ہمارا دور تھا کہ والدین کے تیور سے ڈر لگتا تھا اور والدین باقاعدہ روک ٹوک رکھتے تھے مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن کے دور میں وی سی آر پر فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق تھا لیکن جب تک والدین کوئی فلم لگا کر ہمیں ساتھ نہیں بٹھاتے ہماری جرأت نہ تھی کہ آج کے بچوں کی طرح مرضی ہو تو جو جی میں آیا کرلیا اور دیکھ لیا۔ بچپن میں فلموں کا شوق فطری ہوتا ہے اور اس دور میں ایک یہی تفریح کا اچھا ذریعہ بھی تھا میرے والدین جب بھی کہیں باہر جاتے تو ہم گھر کا دروازہ اچھی طرح بند کرکے وی سی آر پر کوئی فلم لگا دیتے تھے بیشک فلم دیکھی ہوئی کیوں نہ ہو بس جو کیسٹ ہاتھ لگی لگا دی۔ دروازے کی طرف پورا دھیان رکھنا بڑی ہونے کے ناتے میری ذمہ داری ہوتی تھی اور ساتھ ہی وی سی آر بند کرکے کمروں میں جانے کا ہمارا منصوبہ پہلے ہی سے بنا ہوتا جیسے ہی دروازے پر ہارن کی آواز سنائی دیتی ہم سارے بہن بھائی منصوبے کے مطابق دروازہ کھولنے سے لے کر وی سی آر والے کمرے سے نکلنے تک کا عمل بجلی کی تیزی سے انجام دیتے ایک دن امی کوشک گزرا اور انہوں نے صوفے پر ہاتھ لگا کر چیک کئے تو عقدہ کھل گیا کہ ابھی ابھی یہاں سے اٹھ کر لوگ گئے ہیں اس کا توڑ ہم نے یہ نکالا کہ سردیوں میں بھی ٹھنڈے فرش پربیٹھ کر فلمیں دیکھتیں تاکہ امی جب واپس آکر صوفے پر ہاتھ لگا کر چیک کریں تو ان کو حدت و حرارت نہ ملے اور ہم بچ نکلیں آج بچے والدین کے سامنے ہی لیپ ٹاپ ‘ ٹیبلٹ اور موبائل پراپنی اپنی مرضی کی ویڈیو اور فلمیں دیکھنے سے ذرا نہیں ہچکچاتے اور والدین کے لئے بھی ان کو روکنا مشکل ہوگیا ہے یہ ہمارے دور کے حالات تھے جس میں والدین کا ڈر اور خوف لازم تھا افسوس یہ حسین معاشرتی روایت اب دم توڑتی جا رہی ہے اور الٹا اب والدین کو بچوں کا مطیع ہونا پڑ رہا ہے ایسا نہ ہونے پر بچوں کی بغاوت اور ان کے بگڑنے کے خدشات ہوتے ہیں بہرحال تشدد اور عدم برداشت کی بھی کہانیاں اب معمول بنتی جارہی ہے خاص طور پر تعلیمی اداروں اور جامعات میں منشیات کا استعمال اور لڑائی جھگڑے معمول بنتے جارہے ہیں منشیات کا کھلے عام استعمال اور اس میں افسوسناک حد تک لڑکیوں کا بھی برابر شریک ہونا اس معاشرے پر کلنک کا وہ ٹیکہ ہے کہ بیان سے باہر ہے ۔ نوجوان لڑکے اب باقاعدہ آلات تشدد اور آلات دفاع رکھنے پر مجبور ہیں اس کی وجہ ہی وہ رجحان ہے جس میں یا تو آمادہ بہ تشدد ہونا ہے یا پھر مجبوراً خود کو بچانے کے لئے نت نئے متعارف آلات ساتھ رکھنا ہوتا ہے ۔ اب کسی کالج اور جامعہ کا شاید ہی کوئی طالب علم ایسا ملے جو بٹر فلائی نائف ( ایک خاص قسم کا چاقو جو فوری کھلتا ہے) پاس نہ رکھتا ہو ایک معروف کالج کے استاد نے اس موقع پر اہل محفل کو یہ واقعہ سنایا کہ دروان لیکچر ان کو کسی چیز کے فرش پر گرنے کی آواز آئی تو میں نے کوشش کرکے کھوج لگایا کہ یہ کس طالب سے گری ہے جا کر دیکھا تو طالب علم کے پاس ایک راڈ نما آلہ تھا استفسار اور اصرار پر طالب علم نے کھول کر دکھایا تو سکڑنے اور بڑھنے والا لوہے کا مضبوط راڈ تھا میں نے پیار سے طالب علم سے کہا کہ وہ اعتماد کے ساتھ بتائیں کہ وہ یہ رکھنے پر کیوں مجبور ہے لڑکے کا کہنا تھا کہ وہ لڑکوں کے ایک گینگ کا حصہ ہے اور لڑائی میں اس کااستعمال کرنا ہوتا ہے بہرحال میں نے لڑکے کو نصیحت کی اوراس وعدے پر کہ وہ آئندہ اسے کالج نہ لائے گا کالج انتظامیہ کو معاملہ حوالے نہ کیا ایک دوسرے شریک محفل نے تو دو ہاتھ آگے بڑھ کر واقعہ بتایا جو میں خیبر پختونخوا کے معروف اور بڑے ادارے میں پیش آیا جہاں طالب علموں کی لڑائی ‘ فولنگ پر چھڑی اور باقاعدہ منصوبے سے لڑکے اکٹھے ہو کر دوسرے فریق کو گھیر کر بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس لڑائی میں بھی الیکٹرک شارٹ دینے والا آلے کا استعمال کیا گیا دوسری جانب جس پارٹی پر اچانک حملہ کیا گیا وہ اگرچہ چھ سات کے مقابلے میں دو تھے لیکن چونکہ وہ باکسنگ اور کراٹے اور اس طرح کی لڑائی کا سامنا کرنے کے لئے تربیت یافتہ تھے چنانچہ انہوں نے وہ الیکٹرک آلہ بھی چھین کر اس کا استعمال نہ کیا بلکہ ایک لڑکے کی پسلیاں گھونسا مار کرتوڑ ڈالا اور ایک کا گلہ دبا کر قریب الموت کردیا یہ تو اچھا ہوا لڑکے جمع ہوئے اور بمشکل چھڑایایہ تو ایک محفل کے شرکاء کی گفتگو کا احوال تھا جسے مشت نمونہ ازخروارے ہی سمجھا جا سکتا ہے اس کی روشنی میں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جارہا ہے اور ہماری نوجوان نسل کن راہوں پر چل پڑی ہے ۔ والدین کی مشکل اپنی جگہ لیکن جتنا ممکن ہوسکے تربیت اولاد پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال