افغان وفد کا معنی خیز دورۂ تہران

پاکستان اور افغانستان کے درمیان پناہ گزینوں کی بے دخلی کے بعد پیدا ہونے والے کشیدگی کے نئے دور کے ساتھ ہی ایران نے طالبان حکومت کو دوطرفہ تعاون کے معاہدوں کی دعوت دی جسے افغان حکومت نے فوری طور قبول کرلیا اور نائب وزیرا عظم ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد تہران پہنچ گیا ہے۔افغان حکومت کے ترجمان کے مطابق اس دورے کے دورے کے دوران دوطرفہ تعلقات زیر بحث آئیں گے جن میں ٹرانزٹ ،ٹرانسپورٹیشن ،انفراسٹرکچر اور ریلوے شامل ہیں۔اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ افغانستان چا بہار بندرگاہ سے کس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور دوطرفہ معاشی تعاون کا دائرہ کس طرح وسیع کیا جا سکتا ہے۔اس دورے کے دوران افغان نائب وزیر اعظم ایرانی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کو افغانستان میں زراعت ،معدنیات ،ٹرانسپورٹیشن اورصنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دیں گے۔افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفد کے دورۂ ایران میں دو باتیں خاصی اہمیت کی حامل ہیں ۔اول یہ کہ طالبان اس بار محض جہانگیری او رجہاں بانی کے خبط میں مبتلا نہیں بلکہ وہ اپنے ملک کی معاشی بہتری اور عوام کی معاشی بھلائی کا روڈ میپ بھی رکھتے ہیں اور اب وہ ایک ملیشیا کے انداز میں سوچنے کی بجائے ذمہ دارانہ نظام حکومت کا تاثر دینا چاہتے ہیں اور اس انداز ِ فکر کے ساتھ وہ جلد ہی حیران کن طور پر بھارت کے ساتھ بھی دوطرفہ معاہدات کی طرف بڑھ سکتے ہیں ۔دوئم یہ کہ اس دورے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے ۔ایک ایسا وقت ہے جب طالبان کے افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا گراف تاریخ میں پہلی بار بلند ترین سطح پر ہے اور اس وقت بھی افغان حکمرانوں کی طرف سے پاکستان پر تنقید کے تیر برسائے جا رہے ہیں اور پاکستان کو اپنی پالیسی کے سنگین نتائج کا انتباہ کر رہے ہیں۔اس ماحول میں طالبان حکمرانوں کا ایک ایسے ہمسائے کی طرف چل پڑنا جس کے ساتھ ان کا ماضی کا تعلق قطعی خوش گوار نہیں رہا حد درجہ معنی خیز ہے ۔تین برس قبل کے افغانستان کی نسبت آج کے افغانستان اور ایران میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں امریکہ کے قائم کردہ ورلڈ آرڈر اور تصور جمہوریت کے دائرے سے باہر ہیں اور علاقائی ماحول ،تجارت ،ثقافت اور زبان اور کئی دوسرے حوالوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی دونوں کے درمیان ایک نیا حوالہ ہے بلکہ مستقبل کی عالمی تقسیم اسی حوالے کے گرد گھومتی نظر آئے گی ۔اس کے برعکس پاکستان اس دائرے سے نکلتے نکلتے واپس آگیا ہے اور اب امریکہ اور پاکستان کا تعلق امیر خسرو کے صوفیانہ فارسی کے اس شعر کے مصدا ق ہے
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بادازیں من دیگرم تو دیگری
(میں تو بن گیا ہوں تو میں بن گیا ہے میں جسم ہوں اور تو جان ہے۔اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا میں اور ہوں تو اور ہے)پروین شاکر نے اسی بات کو اپنے نسوانی اندازکچھ یوں بیان کیا ہے کہ
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہر جائی کی
دوسری طرف پاکستان کے روایتی قدیم اور علاقائی دوست اس سارے منظر نامے پر حیرت زدہ ہو کر اس شعر کی تصویر بنے بیٹھے ہیں کہ
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
پاکستان اور افغانستان کے اس گرما گرم ماحول میں افغانستان کے وزیر داخلہ ملا خلیفہ کا ایک بیان یوں سامنے آیا ہے”ہم نے فتح کے پہلے سال ہی ان کے ساتھ مخلصانہ طور پران کے مسائل کے حل میں مدد کے حل میں ان کی مدد کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔بلاشبہ پاکستان کا چالیس سال تک مہاجرین کو سنبھالنا بڑا احسان ہے مگر حالیہ غیر معقول فیصلہ سابقہ تمام احسانات کو افغانوں کے دلوں سے بھلا دے گا”اس ماحول میں افغانستان کا اپنے پہلو میں گوادر بندرگا ہ سے ہٹ کر چابہار میں نئے امکانات کی تلاش کی راہ پر چل پڑنا اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان کے لئے گوادر کی صورت میں مستقبل امکانات کی اس نئی دنیااور نئے جہان سے علاقائی ملکوں کو سردست مایوس کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔طالبان حکمرانوں نے بھی امکان کی اس جہان اوردنیا پر تکیہ کرنے کی بجائے چابہار کی صورت میں نئے امکانات کی تلاش کے ذریعے اپنے لینڈ لاک ملک کے مسائل کا نیا حل اور آپشن دریافت کر لیا ہے ۔ابھی افغان وفد کا دورہ جاری ہی تھا کہ خبر ملی کہ ایران اور افغانستان کی انٹیلیجنس نے دونوں ملکوں کی سرحد کے قریب ایرانی پہاڑوں سے تین ایرانی باشندوں کو گرفتار کر لیا کہ جو اسرائیلی تنظیم موساد کی حمایت یافتہ تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں ۔موساد کے ان ایجنٹوں نے افغانستان کے علاقے سے ایرانی حدود میں خود کش ڈرون سے حملہ کرنا تھا ۔جس کے بعد اس کا الزام ایران کی طرف سے افغانستان پر عائد ہونا یقینی تھا ۔افغان میڈیا کے مطابق ان تینوں افراد کو جلد ہی ایران کے حوالے کیا جائے گا ۔ اس خبر کی حقیقت کیا ہے مگر میڈیا میں ان تین افراد کی تصویریں جاری کی گئی ہیں ۔اس کاروائی کی ٹائمنگ بھی اہم ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ خبر محض پاکستان کو چِڑانے کے لئے ریلیز کی گئی ہو مگر ملکوں کو لڑانے کا یہ انداز کوئی نیا بھی نہیں اور پاکستان میں چارعشروںسے جاری دہشت گردی تو اسی طرح بے نامی ہی ہے۔ افغانستان کے ساتھ کشیدگی ،ایران کے ساتھ دوری ،چین کے ساتھ محدود تعلق کے بعد پاکستان کے پاس واحد آپشن بھارت کے ساتھ تعلق رہ جاتا ہے۔شاید چاروں طرف سے گھیر کرہانکا لگا کر پاکستان کو اس مقام تک لایا جارہا ہے جہاں وہ اپنے سب ہمسایوں سے دور ہو اور اس کی مسیحائی کا واحد نسخہ بھارت کے پاس ہو اور اس منظر میں برسوں پہلے ہیلری کلنٹن کا اسلام آباد میں کہا گیا یہ جملہ رہ رہ کر یاد آتا ہے کہ بھارت سے تجارت کی صورت میں پاکستان کی معیشت راکٹ کی رفتار سے اوپر جاتی ہے۔ان حالات میں تو بھارت کے ساتھ اس کی شرائط پر تعلق واحد آپشن رہ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال