اٹھارہویں ترمیم کی ”ترمیم یاتنسیخ”

گزشتہ کچھ عرصہ سے اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے ایک بارپھربحث چھڑگئی ہے اور سیاسی حلقوں میںاس ترمیم پرمختلف النوع قسم کے تبصرے سامنے آرہے ہیں،اس حوالے سے سب سے بڑاسوال یہ اٹھایا جارہاہے کہ ملک کے مقتدرحلقوں کواس ترمیم پرشدیداعتراضات ہیں خصوصاًقومی وسائل کی تقسیم میں مرکزکے مقابلے میں صوبوںکازیادہ حصہ ”تنقید”کی زدمیں ہے اور یہ مقتدرحلقے اس صورتحال سے متفق نہیں ہیںجبکہ یہاںتک کہاجارہاہے کہ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں مبینہ طورپرملک پر”ہائی برڈریجیم”کاتجربہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کو”مسلط”کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی، تاکہ اٹھارہویںترمیم کورول بیک کیاجاسکے،مگردوتہائی اکثریت نہ ہونے کی صورت میں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی،جبکہ اب ایک بارپھرسیاسی حلقوںمیں یہ افواہیںگردش کررہی ہیں کہ ایک بارپھرایک ایسی حکومت مسلط کرنے کی کوششیںہورہی ہیںجس کے تحت اٹھارہویں ترمیم کوختم کرکے مبینہ طورپرصوبوںکے اختیارکوختم کیاجاسکے،اس ضمن میںپاکستان پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کے علاوہ دیگرجماعتوںکے اندر سے بھی اسی نوعیت کے اعتراضات سامنے آرہے ہیں،گزشتہ روزکوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے جبکہ اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کامقصد اسلام آبادکواختیاردیناہے،انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم سے عوام کوفائدہ ہواہے،اسلام آبادمیںبیٹھے لوگ خودکام کرناچاہتے ہیں نہ کسی اور کوکام کرنے دیتے ہیںایسی حکومت بنانی پڑے گی جو18ویںترمیم پر عمل کرے،انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے آصف زرداری نے بلوچستان کوحقوق دلوائے،ہم دہشتگردی کے شکارعلاقوںمیںترقی لیکرآئیںگے،امرواقعہ یہ ہے کہ اٹھارہویںترمیم کے خاتمے کے حوالے سے صرف پیپلزپارٹی ہی مشوش نہیں ہے،دیگرعلاقائی جماعتیں بھی اس پرتشویش کااظہارکررہی ہیں،جبکہ پیپلزپارٹی اس ضمن میںواضح طورپرلیگ (ن)کی جانب اشارے کرتے ہوئے اس بیانئے کوآگے بڑھارہی ہے کہ اب کی بارلیگ (ن) کوآگے لاکر18ویں ترمیم کاخاتمہ کیاجارہاہے،تاہم مسلم لیگ(ن) کے دواہم رہنماؤںسابق وزیرداخلہ راناثناء اللہ اور سابق مرکزی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے پیپلزپارٹی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم رول بیک نہیں کریں گے بلکہ ادھوری ترمیم کومکمل کریں گے،میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے لیگ(ن) کے رہنماؤں نے کہا کہ ہم واضح طورپراعلان کرتے ہیں کہ 18ویں ترمیم ختم کرنے کے بارے میںہم کوئی ارادہ نہیں رکھتے،18ویںترمیم ابھی ادھوری ہے ،ہم مرکزسے صوبوںکوجانے والے اختیارات کو بلدیاتی اداروں کے ذریعے نچلی سطح تک لے کرجائیں گے،ہماراپلان 18ویں ترمیم کواس کے منطقی انجام تک پہنچاناہے،انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی مخالف بات کرکے ہی ووٹرزکی توجہ حاصل کرسکتی ہے،اوئے توئے کے کلچرنے پاکستان کی سیاست اورجمہوریت کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے،ہم توقع رکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت جمہوری روایات کوپیش نظررکے گی ،جہاں تک ملک میں جمہوری روایات کے اندرگالم گلوچ اوردیگرغیرقانونی ،غیراخلاقی روایات داخل کرنے کاتعلق ہے اس حوالے سے یقینا تمام سیاسی قیادت کوایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکرایک ضابطہ اخلاق پرمتفق ہوناضروری ہے، تاہم جہاں تک (ن)لیگ کے رہنماؤںکے اٹھارہویں ترمیم میں صرف مزیدترامیم کرنے کے حوالے سے خیالات کاتعلق ہے ،کسی بھی قانون میںبہتری کی گنجائش سے انکار نہیںکیاجاسکتااور جہاںتک اٹھارہویں ترمیم کے تنسیخ نہ کرنے کے واضح اعلان کی بات ہے توہم سمجھتے ہیں اس کے بعداس حوالے سے بحث اب آگے بڑھانے اور عوام ابہام پیداکرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی،اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک کے بلدیاتی اداروں کوحقوق دینے کی راہ میں مختلف صوبائی حکومتیںہی روڑے اٹکارہی ہیںاور دیکھاجائے توجوکام بلدیاتی اداروںکے کرنے کے ہوتے ہیںان کے اختیارات کی کنجی صوبائی اسمبلیوںکے اراکین کوترقیاتی فنڈزکی شکل میں تھمادی گئی ہیں،بلکہ ترقیاتی فنڈز کی بندربانٹ کرتے ہوئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کوبھی حصہ دار بناکربلدیاتی اداروںکے فنڈزپرتصرف دیاگیاہے، حالانکہ سینیٹ اور اسمبلیوں کے اراکین کاکام قومی اور صوبائی سطح پرعوام کے مفادات کے حوالے سے قانون سازی ہے،نہ کہ سابق آمرضیاء الحق کے دیئے ہوئے اس ”سیاسی رشوت”کے ذریعے پارلیمان (مجلس شوریٰ)کے اراکین کومبینہ چورپرنہال کرنا،بہرحال اگرلیگ(ن) اٹھارہویں ترمیم میں صرف ترمیم کرناچاہتی ہے اور اس کی تنسیخ یا اسے رول بیک نہیں کرناچاہتی تواس کاخیرمقدم کرناچاہیئے،مگراس کے لئے بھی اس کاانتخابات کے ذریعے اقتدارمیں آناضروری ہے،اور انتخابات کے نتائج کیانکلتے ہیںاس کیلئے 8فروری تک انتظارلازمی ہے جوانتخابات کیلئے مقررکردہ تاریخ ہے۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے