گورنر کی غلط فہمی یا حقیقی صورتحال

صوبے میں اکا دکا واقعات کے علاوہ ایسے حالات نہیں جس پر یہ کہا جا سکے کہ صوبے کے خراب حالات کے باعث عام انتخابات کا ماحول متاثر ہوسکتا ہے ایسا لگتا بھی نہیں کہ صوبے میں ریاستی عملداری ہونے اور امن وامان برقرار رکھنے کے اداروں اور انتظامیہ کی موجودگی میںکوئی بڑا اورسنگین مسئلہ پیش آئے نیزماضی میں جس طرح کے حالات میں انتخابات کا انعقاد ہوا ہے اور عوام نے انتخابات میں بھر پور حصہ بھی لیا اس کے باوجوداس وقت اس حوالے سے تشویش اور شکوک و شبہات کا اظہارسمجھ سے بالاتر امر ہے مگر گورنر خیبر پختونخوا وقتاً فوقتاً صوبے میں انتخابی ماحول اور امن و امان کی صورتحال بارے اس طرح کا اظہار خیال کرتے آئے ہیں جسے معروضی صورتحال میں سمجھنا اور مبنی برحقیقت قرار دینے کی گنجائش نہیں البتہ اگر گورنر کے پاس کوئی ایسی خفیہ معلومات ہوں اور ان کو ممکنہ منصوبوں کا علم ہو اور اس کی روشنی میں وہ اظہار خیال کر رہے ہوں تو یہ الگ بات ہو گی اپنے تازہ انٹرویو میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث صوبہ کے بعض علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کو مشکل قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے مختلف مقدمات میں مطلوب رہنمائوں کو جلسوں کی اجازت نہ دیئے جانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہے، ٹانک، ڈی آئی خان، لکی مروت، بنوں اور بلوچستان میں سیکورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ گورنر خیبر پختونخوا نے کہا تھا کہ انتخابات پرامن ہونے چاہئیں، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ووٹر ووٹ ڈالنے جائے اور اپنی جان ہی کھو دے، ایک ذمہ دار عہدے پر بیٹھا ہوں، اس لیے بس اتنا ہی کہوں گا کہ صوبائی حکومت اگر محسوس کرے تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے رکھے۔بجائے اس کے کہ محولہ حالات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کا مشورہ دیاجائے انہوں نے الٹا الیکشن کمیشن کو مخاطب کرکے انہیں الیکشن کے لئے ساز گارحالات نہ ہونے کا احساس دلا رہے ہیں ان کے بیان کی سیاسی وجوہات اور پس منظر کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور خود ان کے بیان سے ایک جماعت کوا نتخابی عمل میں پوری طرح حصہ نہ ملنے کا عندیہ بھی ملتا ہے اندریں حالات یہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کا پرامن انعقاد اورتمام جماعتوں کو برابر کا موقع دینے کی ذمہ داری نبھائیںاور کسی ایسے پہلو کو نظر انداز نہ کیا جائے جس سے امن عامہ اور مساوی سیاسی حقوق متاثر ہوتے ہوں۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی