ا نتخابات اور سکیورٹی کے خدشات

الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات کیلئے 5لاکھ91ہزار106سکیورٹی اہلکار درکار ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق چاروں آئی جیز نے بتایا کہ دستیاب نفری تین لاکھ 28ہزار510ہے، آئندہ عام انتخابات کے لئے دو لاکھ 77ہزار558سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وزارت داخلہ کو ارسال کئے گئے خط کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں نوہزار سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہو گی اسلام آباد کے لئے 4500سکیورٹی اہلکار دستیاب ہیں، شہر اقتدار میں4500اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ پولنگ سٹیشنز پر پاک فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ضرورت ہے، فوج اور سول آرمڈ فورسز کی بطور سٹیٹک اور کوئیک رسپانس فورس تعیناتی کی بھی ضرورت ہے اس ضمن میں کہا گیا ہے کہ 7 دسمبر سے پہلے الیکشن کمیشن کو اس سے متعلق آگاہ کیا جائے۔دریں اثناء نگران وفاقی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہاہے کہ دہشت گردی کے واقعات حکومت کے لئے چیلنج ہیں اور انتخابات میں دہشت گردی کا خطرہ بھی موجود ہے۔ عام انتخابات کے دوران دہشت گردی کا چیلنج اور خطرہ درپیش ہو گا۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ انتخابات کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں کسی بھی سیاسی رہنما کو نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے سیکورٹی اہلکاروں کی طلبی اورسیکورٹی کے لئے کافی نفری کی عدم دستیابی کے تناظر میں فوج سے مدد طلب کرنے کا عمل اپنی جگہ لیکن وزیرداخلہ کا یہ بیان حیرت انگیز ہے کہ سیاسی سرگرمیوں میں کسی بھی سیاستدان کونشانہ بنانا آسان ہو گا۔ سیاسی جلسوں اوررہنمائوں پرخودکش حملے اور جلسوں میں بم دھماکوں سے لے کر امیدواروں کو نشانہ بنانے کے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور اب بھی پوری طرح ان خطرات سے صرف نظر ممکن نہیں لیکن جس تواتر کے ساتھ نگران حکومت میں شامل اہم عہدیدار جیسا کہ گزشتہروز گورنر خیبر پختونخوا اور اگلے روز وزیر داخلہ کا مماثل بیان سامنے آیا ہے یہ سمجھ سے بالاترامر ہے ان خطرات کا اس قدر کھل کر اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے اظہار پر تو ایسا لگتا ہے جیسا یہ ان کو خدشات نہ ہوں بلکہ یہ خدانخواستہ ان کی خواہش ہوں بہتر ہوگاایسے میں نگران وزیر داخلہ خطرات کا پرچار کرنے کی بجائے خطرات کے تدارک کے اقدامات کی ذمہ داری پر توجہ دیں تو زیادہ موزوں ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ممکنہ عوامل اور حالات کے پیش نظر ملک گیر سیکورٹی کی صورت حال’، آخرکار، صرف اور صرف ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے۔ اگر، کسی بھی وجہ سے، یہ ‘مثالی’ نہیں ہے، تو صرف ریاست ہی اسے ٹھیک کر سکتی ہے۔پچھلے سال بھی پنجاب اورخیبر پختونخوا اسمبلیوں کے طویل التوا انتخابات کو غیر آئینی طور پر موخر کرنے کے لئے”سکیورٹی صورتحال”کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھااور ایسا پہلی بار ہی ہوا تھا وگر نہ قبل ازیں سخت حالات میں بھی ایسا کبھی نہیں ہوا ‘ اس وقت ہی محولہ قسم کے حالات و واقعات اورنامعلوم خطرات پر زور دینے کیوجہ کیا ہے دیکھا جائے تو ماضی میں انتخابی عمل کو معطل نہیں کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب پاکستان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھاماضی میں دہشت گردی سے متعلق حالات کو دیکھتے ہوئے کہ ملک کے اداروں نے پہلے ہی سیکورٹی چیلنجوں کے وسیع میدان عمل سے نمٹنے کے لئے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے جب کہ جمہوری عمل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا، اس بات پر یقین کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ وہ اچانک ایسا کرنے کی اپنی صلاحیت کھو چکے ہیں لہٰذا جہاں حالیہ ہفتوں میں پرتشدد واقعات میں تشویشناک اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے، وہیں اس مسئلے کو 8 فروری 2024 کی طے شدہ تاریخ تک پہلے سے تاخیر کا شکار انتخابات کے انعقاد کی ضرورت سے بھی نہیں جوڑا جانا چاہئے۔ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لائی جانی چاہئے اورپاکستانی عوام کو نقصان پہنچانے کے لئے کام کرنے والے تمام عناصر کو ختم کرنے پر اپنی توانائیاں مرکوز کرنی چاہئے اگر ریاست اپنا کام اچھی طرح کرتی ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ شہری تشدد کے خوف کے بغیر اپنے سیاسی حقوق کا استعمال نہ کر سکیں۔جہاں تک فوج کے انتخابات میں طلبی اور کردار کا تعلق ہے سیکورٹی کے لئے طلبی میں کوئی حرج نہیں پاک فوج اس ملک کا ادارہ ہے اور ہر مشکل صورتحال میں وہ سول انتظامیہ کی مدد کے لئے آتی رہی ہے یہ پہلی مرتبہ نہیںکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کی خدمات طلب کی گئی ہیں البتہ تنقید اور تحفظات کے اظہار کے مواقع کو معدوم کرنے کا تقاضا ہو گاکہ پولنگ سٹیشنز کے اندران کو تعینات کرنے سے اجتناب کیاجائے ان کو پولنگ سٹیشنز کے اندر کی بجائے باہر تعینات کیا جائے۔انتخابی عمل میں ان کی عدم شمولیت کے بعد ناقدین کو بلاوجہ کی تنقید کاموقع نہ ملے گا جس کا پہلے کے مقابلے میں اس مرتبہ تدارک کی زیادہ ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟