خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی جدوں تک

قصور اس صحافی کا نہیں تھا، دراصل اس کے سوال پو چھنے کے دو کا رن تھے ، ایک تو یہ کہ عموماً ان دنوں شادی کا سیزن چل رہا ہوتا ہے، اور دوسرا یہ کہ کم از کم زندگی کے دو شعبے ایسے ہیں جن سے وابستہ افراد کی شادیوں کے حوالے سے سوال کئے جاتے ہیں۔ دونوں سے تعلق رکھنے والوں کو سیلیبرٹی کہا جاتا ہے۔ ایک شعبہ شوبز کا ہے اور دوسرا سیاست کا ، اس لئے اگر صحافی بے چارے نے پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین سے ان کی شادی کے بارے میں پوچھ ہی لیا تو اس میں ناراض ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس پر ہمیں تو اپنے ہی دور کے خوبصورت لہجے کے شاعر غلام محمد قاصر مرحوم یاد آگئے جنہوں نے کہا تھا
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا
ہم نے ہر اس شخص سے پو چھا جس کے نین نشیلے تھے
اب بندہ جوان بھی ہو خوبصورت بھی ہو۔ عالمی شہرت کی حامل بھی ہو اور اس کی شادی کے حوالے سے گزشتہ کئی برس سے ایسی خبریں بھی گاہے بہ گاہے سامنے آتی رہی ہوں کہ اس کے لئے رشتہ تلاش کیا جا رہا ہے اس کی ہمشیرائیں بھی اس حوالے سے مختلف مواقع پر اپنے بیانات میں پسند ناپسند کے زمرے میں ” شرائط بھی سامنے لا چکی ہوں تو موقع ملتے ہی اگر کوئی صحافی اسکی شادی کا سوال اٹھاتا ہے تو اس پر خفا ہونے کی بجائے اس بھارتی فلم کے گانے کو یاد کرکے خوش ہوجاناچاہئے کہ
شاید میری شادی کا خیال دل میں آیا ہے
اسی لئے ممی نے میری تجھے چائے پہ بلایا ہے
ویسے دیکھا جائے توبلاول بھٹو زرداری نے الٹا صحافی سے سوال کرکے صحافی کولاجواب ضرور کر دیا ہے کہ ”شادی میں نے کرنی ہے کہ آپ نے ؟ آپ کوکیا پریشانی ہے ؟ آپ کی نظر میںکوئی لڑکی ہے جوآپ پوچھ رہے ہیں؟” معلوم نہیں الٹا سوالات کی بوچھاڑ سے صحافی بیچارے کی کیا حالت رہی ہو گی کہ راوی یعنی خبرنگاراس معاملے میں ”خاموش” ہے کہ بلاول بھٹو کے اس استفسار کاکوئی جواب صحافی سے بن پڑا تھا یا نہیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ بزرگوں نے جو پہلے تو لو پھر بولو کا ایک محاورہ ایجاد کیا ہے اور جوصدیوں سے درست چلاآرہا ہے اس کو پلے ضرورباندھ لینا چاہئے یعنی دراصل ہربات کاموقع محل ہوتا ہے کوئی جوازہوتا ہے اور خصوصاً ان دنوں جب ہرطرف انتخابات کی باتیں ہو رہی ہوں کسی بھی سیاسی رہنماء کوجوماشاء اللہ جوان بلکہ جوان رعنا بھی ہو خواہ مخواہ انتخابی سیاست سے کسی دوسرے مسئلے میں الجھاے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کسی بھی سیاسی رہنماء کے نزدیک ان دنوں انتخابات سے زیادہ کسی اور بات کی کوئی اہمیت ہو ہی نہیں سکتی اس لئے سوال کا جواب مرزا غالب کے بقول یہی ہوسکتاتھا کہ
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کئے ہوئے
بات صرف بلاول بھٹو زرداری کی ہی شادی کی نہیں ہے جیسا کہ گزارش کر چکا ہوں شوبز کی شخصیات کی شادیوں کا بھی اکثر میڈیا پرچرچا رہتاہے ۔
عائشہ عمر(بلبلے فیم) سے بھی اکثر اس کی شادی کے بارے میں سوال کئے جاتے تھے اب انہوں نے بالاخر اس حوالے سے زبان کھول ہی لی ہے اور کہہ دیا ہے کہ ”بس بہت ہو گئی ہے” یعنی اب انہوں نے بھی شادی کا فیصلہ کرلیا ہے مگر انہیں کس قسم کادولہا چاہئے اس بارے میںانہوں نے پاکستانی جوانوں کومایوس کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کسی پاکستانی سے نہیں بلکہ ترکی اور ایک دوسرے ملک کے مرد سے شادی کی خواہشمند ہیں اور بندہ ایسا ہونا چاہئے جوان کی عزت کرے ‘ خیرجہاں تک عزت کرانے کا تعلق ہے یہ توہر خاتون کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے پیار کرے اس کی عزت کرے اسے احترام دے یعنی اس بات میںکوئی مذائقہ نہیں ہے البتہ جہاں تک پاکستانی کی بجائے کسی غیر ملکی سے شادی کی خواہش کاتعلق ہے توایسا لگتا ہے کہ شوبز سے تعلق رکھنے کی بناء پر وہ ”اطغرل غازی”اور میرا سلطان یاپھر اس سے بھی پہلے پاکستان میں دکھائے جانے والے ڈرامے عشق ممنوع جیسے ڈراموںسے کچھ زیادہ ہی متاثرنظرآتی ہیں اس لئے وہ پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر دوسرے دیار جانے کو ترجیح دے رہی ہیں اللہ کرے ان کی خواہش پوری ہو اور انہیں ان کی پسند کا ”غیرملکی”جیون ساتھی ملے ‘ مگر”شادی کا لڈو” اصل میں خربوزے کی مانند ہوتا ہے جس کی ”مٹھاس” کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ خطرہ بھی دامن گیر رہتا ہے کہ کاٹنے کے بعد اندر سے پھیکا نہ نکل آئے کیونکہ اکثر خواتین اداکارائوں کے ساتھ ایسی ”وارداتیں” ہوچکی ہیں جن میں بعد میں مسائل پیدا ہوئے جیسا کہ ایک اداکارہ کے کسی امریکی پاکستانی کیپٹن نوید کے ساتھ شادی کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں بعد میں کسی اور شخص نے ان کو اپنی منکوحہ قراردیا معاملہ مقدمے بازی تک جا پہنچا درمیان میں موصوفہ نے شادی شدہ ہونے ہی سے انکار کردیا اور پھر سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر نے سارا بھانڈا ہی پھوڑ دیا اب وہ بے چاری کٹی پتنگ کی طرح ادھر ادھر ڈولتی پھر رہی ہیں اور اپنی ”باکمال انگریزی” سے لوگوں کومرعوب کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں جبکہ عمر ڈھل جانے کی وجہ سے اب انہیں نہ فلمیں ملتی ہیں نہ ان کا گھر بس رہا ہے یعنی پھرتے ہیں میرخوار کوئی پوچھتا نہیں والی صورتحال کا سامنا ہے ان کو اس لئے پاکستانی جوانوں کی خواہشات کا ”خون” کرنے کی کوشش کہیں عائشہ عمر کوکسی مشکل سے دو چار نہ کردے اس پرانہیں ضرور غور کر لینا چاہئے یعنی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی 26 کروڑ کی آبادی کے لگ بھگ نصف کے قریب جوان نسل میں ایک بھی ایسا نہیں جس میں سے انہیں اپنی پسند اور خواہش کے مطابق کوئی بندہ شادی کے لائق نہ مل سکے؟ یعنی بقول محسن نقوی عائشہ عمر یہ کہہ رہی ہیں کہ
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میںسب کچھ ہے بس اک تیری کمی ہے
لیکن ڈراموں کی چکاچوند سے متاثر ہونے والی عائشہ عمر سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ڈرامے اور فلم کے فیتے پر کیمرے کی آنکھ سے منتقل ہونے والے مناظر کی دلکشی دراصل دور کے ڈھول سہانے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے اور ان میں رنگوں کی جوجھلکیاں نظرآتی ہیں حقیقی دنیا سے ان کا تعلق بس واجبی سا ہی ہوتا ہے بلکہ پس منظر میں دھول ‘دھواں ‘ چٹیل پہاڑ اور خشک صحرا ظاہر کی آنکھ دیکھنے کے قابل نہیں ہوتی جبکہ زندگی کے تلخ حقائق انہی کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے خوابوں کی دنیا میں بسنے والوں کوکبھی کبھی آنکھ کھلنے پر تصویر کا دوسرا رخ تکلیف وہ نظرآتا ہے تو ان کی چیخیں نکل آتی ہیں
یہ الگ بات سنائی نہیں دیتی ورنہ
اشک گرنے کی بھی آواز ہوا کرتی ہے

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی