سنجیدہ سیاست کے بنیادی تقاضے

گزشتہ روز خیبر پختونخوا اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جو ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی دیکھنے کو ملی اگرچہ اس کی توقع کی جارہی تھی تاہم اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کئے بناء نہیں رہاجاسکتا ، اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ چند برس سے ملکی سیاست میں جونئی کیفیت داخل ہوئی ہے یا داخل کی گئی ہے ، اس نے پارلیمانی سیاست کی سنجیدگی پر سوال اٹھانا شروع کر رکھے ہیں ، سیاسی معاملات کو باہم افہام وتفہیم کے ساتھ نمٹانے کی جگہ جس طرح گالم گلوچ ، ذاتی انا اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے رویوں کوسیاست میں داخل کر دیاگیا ہے ، اس نے عالمی سطح پر بھی ہمارے امیج کو بری طرح مسخ کرنا شروع کر دیا ہے ، حالیہ انتخابات کے بعد جس طرح ایک بار پھرمتحارب سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے مد مقابل آکر الزامات ، دشنام طرازی اور عدم برداشت کے بیانیوں کو بڑھاوا دے رہی ہیں اور زبانوں سے آگ اگلی جارہی ہے ، اس رویئے سے رجوع کرنے کو کوئی بھی تیار دکھائی نہیں دیتا ، اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ روز خیبر پختونخوا اسمبلی کے اندر ہلڑ بازی اور ایک خاتون رکن اسمبلی پر کسے جانے والے نازیبا جملے ، خود محولہ رکن اسمبلی کی جانب سے گھڑی لہرا لہرا کرقابل اعتراض جملے کسے جانے ، یہاں تک کہ مہمانوں کی گیلری سے نازیبا ردعمل ، اسی ہلڑ بازی کی بدترین مثال ہے ، صورتحال کی ذمہ داری کس پرعاید ہوتی ہے اس حوالے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد ہی وثوق کے ساتھ کچھ کہاجاسکے گا ، تاہم مجموعی طور پراس صورتحال کو قابل مذمت قرار دینے میں کوئی امرمانع نہیں ہوسکتا ، اور نہایت محتاط انداز میں بھی اس پر تبصرہ کیا جائے تو یہ کہ افسوس کہ ہم نے عالمی برادری کاحصہ ہوتے اور دنیا بھر میں رائج سیاسی اخلاقیات سے کوئی سبق نہیں سیکھایہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم من حیث القوم اس بات پرضرور غور کریں کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچے گی ؟، اس موقع پر قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پرتحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اور نامزد وزیر اعظم عمرایوب نے اجلاس میں شرکت کیلئے آنے کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کی پذیرائی کرنی چاہئے ، انہوں نے کہا کہ ہم اسمبلی چلانے کے دوران کوئی رولا ڈالیں گے نہ ہی رکاوٹیں کھڑی کریں گے، عوام نے ہمیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے اور ہم عوام کے مفاد کیلئے کام کریں گے ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مثبت رویہ ہے جس کی نہ صرف تعریف کرنی چاہئے بلکہ تمام اراکین پارلیمنٹ خواہ وہ کسی بھی ایوان سے تعلق رکھتے ہوں ایسے ہی رویئے کا اظہار کریں تاکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے اور عوام آج جن مسائل سے دو چار ہیں ، ملک قرضوں میں ڈوباہوا ہے جس سے چھٹکارا دلا کر ہی عوام کوخوشحالی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے ، تاہم دوسری جانب تحریک انصاف کی قیادت کواپنے رویئے پربھی نظرثانی کرنی چاہئے جوگزشتہ کئی روزسے ان کے قائد نے اختیار کر رکھا ہے اور انہوں نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر نو منتخب حکومت کے ساتھ نئے قرضے کے اجراء پرسوال اٹھانا شروع کر رکھے ہیں،اب تک تو اس حوالے سے صرف افواہیں ہی گردش کر رہی تھیں مگر آج (29فروری) کے اخبارات میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بانی تحریک انصاف نے یہ خط لکھ کر ارسال کردیا ہے ، جوبلاشبہ ملکی مفادات کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے ، اس قسم کی حرکت ایک بار پہلے بھی اسی جماعت کے سابقہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس وقت کی حکومت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کے ذریعے آئی ایم ایف کے قرضوں کے حوالے سے ان کی واپسی کے ضمن میں ذمہ داری قبول نہ کرنے پر اکسایا تھا ،اگرچہ یہ خبریں سامنے آنے کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے جو ردعمل آیا تھا وہ حوصلہ افزاء تھا کہ آئی ایم ایف کوپاکستان کی اندرونی سیاست سے کوئی تعرض نہیں ہے تاہم اب دیکھنا ہوگا کہ جب یہ خط باقاعدگی کے ساتھ لکھے جانے کی خبریں سامنے آگئی ہیں تواب آئی ایم ایف کیا رویہ اختیار کرتا ہے؟ ، تاہم تحریک کے بانی کی جانب سے اس اقدام کو ملکی مفادات کے ساتھ متصادم قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے جس کا مقصد ملک کو معاشی بربادی سے ہمکنار کرناہی ہوسکتا ہے ، ادھرایک اوراہم مسئلہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے اندر بقول اے این پی کے صوبائی صدرایمل ولی خان ، الیکشن ڈرامہ میں افغان مہاجر بھی اسمبلی پہنچ گیا،یہ الزام نہایت ہی سنجیدہ تحقیقات کا متقاضی ہے ، اگر یہ سچ ہے تواس کافوری تدارک ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن پربھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ صورتحال کی وضاحت کرے، تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں ، الزام درست ہونے کی صورت میں متعلقہ شخص کی رکنیت کالعدم قراردی جائے بلکہ اس حوالے سے تجویز کنندہ ،تصدیق کنندہ سے لے کر اجازت دینے والے سرکاری اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کرکے انہیں کیفر کردارتک پہنچایا جائے ، یا پھر ان الزامات کو غلط قرار دے کر حقائق منظرعام پر لائے جائیں۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے