سیاسی ٹھگوں کا کاروبارپھر سے چل پڑے گا

دنیا جدید سے جدید تر ہوتی جارہی ہے ۔ دنیا کی تعلیم و ترقی کا معیار بدل رہا ہے مگر اس کا اثر پاکستان کے لوگوں پر نہیں ہورہا ۔پاکستان میں محنت نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی ۔ یہاں ہر بندہ شارٹ کٹ کا عادی ہے اس لیے یہاں کی سڑکوں پر ٹریفک دیکھ لیں ، کسی بھی جگہ کوئی کیاری دیکھ لیں لوگوں نے دو قدم کا فاصلہ کم کرنے کے لیے اس کا ستیاناس کردیا ہوتا ہے ۔ صفائی کا نظام دیکھیں ہر کوئی گند اٹھا کر اپنے دروازے کے باہر پھینک دیتا ہے ، راہ چلتی گاڑی سے گند باہر سڑک پر پھینک دیتے ہیں ۔ ایسے ملک میں سیاست کیسی درست سمت میں چل سکتی ہے ۔ پوری دنیا میں سیاست قانون سازی کے لیے کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں سیاست گلی محلہ کے راستے پکے کرنے ، بجلی کے کھمبے اور ٹرانسفارمر لگانے اور پوسٹنگ ٹرانسفر کرانے کے لیے کی جاتی ہے ۔ گزشتہ دس بارہ برسوں سے ہمارے ہاں ٹھگوں کا ایک نیا گروہ متعارف ہوا ہے جسے ہم اپنی سہولت اور آسانی کے لیے سیاسی ٹھگ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہ ٹھگ سیاست کے سہارے یا نام پر لوگوں کو ٹھگتے ہیں ۔ یہ اپنے آپ کو حکومتی پارٹی کے نمائندہ اور ورکر کہتے ہیں ، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو منتخب سیاسی نمائندوں کے قریبی رشتہ دار ہیں ، گزشتہ حکومت میں تو وزیر اعلی اور چند وزیروں کے بھائیوں نے جو دکان لگائی تھی وہ کس سے پوشیدہ ہیں ۔ سیاسی حکومتیں جب بنتی ہیں تو یہ ٹھگ ان سیاسی جماعتوں کی ٹوپیاں سر پر رکھ کر اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور سرکاری دفاتر ، سکرٹریٹ اور وزیر وں ، مشیروں ، اور سیاسی نمائندوں کے دفتروں کے طواف کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ ہر علاقے کے لوگ اپنے مسائل حل کرنے ان مقامات کا رُخ کرتے ہیں یہ ٹھگ انہیں گھیر لیتے ہیں اور ان کو ٹھگ لیتے ہیں ۔ اپنے اردگرد دیکھ لیں آپ کو یہ ٹھگ نظر آجائیں گے ۔ ان کا کوئی کاروبار یا کام نہیں ہوتا لیکن گزشتہ دس برسوں میں یہ لوگ کافی امیر ہوگئے ہیں ، ان کے پاس گاڑیاں آگئی ہیں ،ان کے ہاتھوں میں آپ قیمتی موبائل فون دیکھیں گے ۔یہ ساری دولت اور عیاشیاں یہ لوگوں کو ٹھگ کر کرتے ہیں ۔ یہ زیادہ تر اپنے علاقے کے لوگوں کو ٹھگتے ہیں ۔ سیاسی حکومت کے آتے ہی یہ وزیروں کے دفتروں پر قبضہ جمالیتے ہیں ۔سب سے زیادہ تعداد میں غریب سکول ، کالج ٹیچروں اور سرکاری ملازمین کو یہ لوٹتے ہیں ۔ اس لیے کہ یہ غریب اپنی پوسٹنگ ٹرانسفر کے سلسلے میں خوار ہورہے ہوتے ہیں ۔ یہ ٹھگ جو اپنے آپ کو پارٹی کا ورکر یا عہدہ دار بتاتے ہیں اور بعض اوقات یہ ہوتے بھی ہیں ان غریبوں سے پیسے لیکر ان کے کاموں کے پیچھے لگا جاتے ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ لوگ بیوروکریٹس اور بابوؤں کے ساتھ تعلقات بھی بناتے ہیں اور وزیروں مشیروں اور سیاسی رہنماؤں سے ان کے پیڈ پر لکھوا کر بھی کام نکلواتے ہیں ۔اس طرح یہ کاروبار سیاسی حکومتوں کے دور میں زوروں پر ہوتا ہے ۔ یہ پوسٹنگ ٹرانسفر کے لیے لاکھوں میں پیسے لیتے ہیں ۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ اچھی اور منافع بخش پوسٹنگ لینے کے لیے افسران بھی ان کو پیسے دیتے ہیں ۔یہ لوگوں سے روزانہ دعوتیں بھی کھاتے ہیں ، دوسروں کے نام پر ان سے گفٹ بھی لیتے ہیں اور پیسے بھی لیتے ہیں ۔ یہ چھوٹے ٹھیکیداروں کو بھی اسی طرح ٹھگتے ہیں کہ وہ ان کو ٹھیکے دلوائیں گے یا ان کے رکے ہوئے بل پاس کردیں گے ، یا ان کے لیے فنڈز میں اضافہ کردیں گے ۔ پھر یہ کلاس فور کی ملازمتوں کے سلسلے میں بھی دلالی کرتے ہیں ۔ ایسے بے شمار لوگ آپ کے اردگرد ہیں جن کے پاس کل کھانے کے پیسے نہیں تھے وہ آج بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں ۔ یہ ٹھگ کسی بھی سیاسی پارٹی کے سخت یا برُے وقت میں ساتھ نہیں دیتے ۔یہ جس پارٹی کی حکومت آرہی ہوتی ہے اس کی ٹوپی سر پر رکھ کر اپنا کام نکلواتے ہیں ۔ گزشتہ حکومتوں میں ہر مشیر و وزیر نے ایک یا ایک سے زیادہ ورکروں کو اپنا سکریٹری بنایا تھا ۔ان ورکروں نے جس کلچر کو رواج دیا وہ بہت ہی بھیانک اور خطرناک ہے ۔ یہ ہر محکمے میں کمیشن لینے کے لیے گھستے رہے اور لوگوں سے پیسے اور مراعات لیتے رہے جس سے عوامی سطح پر ان مشیروں اور ممبران کی ساکھ بہت متاثر ہوئی ۔ وہ سب جانتے بوجھتے بھی اگر خاموش رہے ہیں تو وہ ان کے اس جرم میں شریک کار رہے ہیں یا پھر یہ سب ان کے لیے یہ کرپشن کرتے رہے ہیں ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی یہ تیسری حکومت ہے ۔ تیسری مرتبہ لوگوں نے ووٹ کسی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں دیا ۔ اگر ایسا ہوتا تو محمود خان اور پرویز خٹک اپنی سیٹیں جیت جاتے ۔اس مرتبہ ووٹ صرف اور صرف عمران خان کو لوگوں نے دیا ہے ۔ اس لیے ان پر بھاری ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ عمران خان کے نام پر لیے گئے ووٹ کے سہارے جس منصب پر ہوں اس کا غلط استعمال نہ کریں اور نہ ہی ان کے سیاسی ورکر جو ٹھگنے میں دس برس کا تجربہ رکھتے ہیں وہ لوگوں کو ٹھگیں ، یہ سب ٹھگ سخت وقت میں ایسے غائب ہوگئے تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ مگر جونہی حکومت آئی یہ پھر سے کپڑے استری کرکے واسکٹ پہن کر نمودار ہوگئے ہیں ۔ اے این پی کی حکومت میں ایسے ایک ہی کردار نے ان کی پوری سیاست ختم کردی ۔ایسے کردار تحریک انصاف کی صفوں میں بہت زیادہ ہیں ۔ گزشتہ دس برسوں میں صوبائی سکرٹریٹ ، اور وزیر اعلی سکرٹریٹ ان کا میدان رہا ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ سول بیوروکریسی بھی ان کو منع کرنے کی جگہ ان کی حوصلہ افرائی کرتی رہی ہے ۔ یہ لوگ ترقیاتی سکیموں کی اے ڈی پی میں شمولیت ، ان کے لیے فنڈنگ اور فنڈز کی ریلیز تک میں شامل رہے ہیں ۔ جس سے بیوروکریسی کا وہ تصور جو کسی زمانے میں ان کے بارے میں تھا وہ بُری طرح متاثر ہوا ہے ۔ اگر چیف سکریٹری چاہیں کہ ان کی اور ان کے عملے کی عزت بحال رہے تو ان کو سختی کے ساتھ ان ٹھگوں کا داخلہ سکریٹریٹ میں بند کرنا ہوگا ۔ ان ٹھگوں میں سے بہت سارے سرکاری ملازم بھی ہیں جن کو سیاسی بنیادوں پر مختلف محکموں میں ان کے ضلعوں میں بھرتی کیا گیا مگر یہ ایک دن بھی اپنی ڈیوٹی پر نہیں جاتے اور یہ پشاور میں ڈیرہ ڈالے ہوتے ہیں۔ کیسا ملک ہے کیسا قانون ہے کہ ایک بندہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بھی سیاسی کارکن ہے اور اپنی ڈیوٹی کرنے کی جگہ وہ یہ سب کام کرتا ہے ۔ صوبہ کے نئے وزیر اعلی ایک مخلص، نڈر اور فعال سیاسی ورکر رہے ہیں ۔ یہ ساری باتیں ان کے علم میں بھی ہوں گی اس لیے کہ وہ گزشتہ سے گزشتہ حکومت میں یہاں وزیر بھی رہے ہیں ۔ وہ اگر اپنی پارٹی کی نیک نامی اور عمران خان کی نیک نامی چاہتے ہیں تو ان عناصر کو اپنے صفوں سے دور کردیں اور بیوروکریسی کو حکم جاری کریں کہ ایسے کسی شخص کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے اور پرچی اور سفارش کلچر کو ختم کردیا جائے اور ٹاوٹس کلچر کو مزید ترقی نہ کرنے دیں ۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو یہ ٹھگ ان کے سارے اچھے کاموں پر پانی پھیر دیں گے ۔پوسٹنگ ٹرانسفر کے لیے ایک شفاف ڈیجیٹل خود کار نظام بنایا جائے جیسا دہلی کی حکومت نے بنایا ہے ۔جس میں انسانی مداخلت بالکل نہ ہو تو بہت ساری خرابیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی ۔ نوکریاں سیاسی رشوت کی جگہ میرٹ پر دی جائیں تو لوگوں کا حکومتوں پر اعتماد بحال ہوگا ۔ بیوروکریسی خود کو سیاسی شخصیات کا غلام سمجھنے کی جگہ ریاست کے نمائندہ اور منتظم سمجھیں تو ان کی بھی عزت ہوگی اور نظام بھی بہترین طریقے سے چل سکے گا ۔عوام کا کیا ہے وہ شارٹ کٹ کے عادی ہیں وہ جو ضرورت مند ہیں اور جن کے کام ہیں ٹھگوں کی تلاش میں رہیں گے کہ وہ ان کو ٹھگیں ، اس جہالت کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ انصاف کے نام پر بننے والی پارٹی کو انصاف کرنے کا ہنر آنا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس پارٹی نے مفاد پرستوں کا چہرہ قریب سے دیکھ لیا ہے کہ جس کو جتنا بڑا عہدہ ملا وہ اتنا ہی خود غرض ، موقع پرست اور لوٹا نکلا ۔ اور جو وفادار رہے لوگوں نے ان کو اور عزت دی ۔ اب ان کو اپنی عزت میں اضافہ کرنا چاہیے اور گزشتہ سے سبق سیکھنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو