اب آگے بڑھیں گے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ؟

وزیراعظم کے انتخاب اور حلف برداری کے بعد وفاقی کابینہ کیلئے مسلم لیگ (ن)کی قیادت میں صلاح مشورے جاری ہیں امید ہے کہ اگلے چند دنوں میں وفاقی کابینہ کے ارکان حلف اٹھالیں گے۔ کابینہ میں ق لیگ، آئی پی پی اور ایم کیو ایم کے علاوہ بی اے پی کو بھی نمائندگی حاصل ہوگی۔ حکمران اتحاد کی ایک بڑی جماعت پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی۔ پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو کے مطابق بجٹ، قانون سازی اور عوام دوست فیصلوں میں حکومت سے مکمل تعاون کریں گے۔ قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس اور بعدازاں دستوری مناصب کیلئے ہونے والے انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان اسمبلی نے جو طرزعمل اپنایا آئندہ اجلاسوں میں بھی اسی طرزعمل کے مظاہرے کی اطلاعات ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماء اس امر کا دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کی قومی اسمبلی میں 188نشستیں تھیں جو کم کرکے91کی گئیں۔ ایک نشست ان کی اتحادی جماعت ایم ڈبلیو ایم کی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ(ن)کی قومی اسمبلی میں اصل میں 17 نشستیں ہیں دھاندلی سے اسے دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی بنایا گیا۔ پی ٹی آئی کے اس مؤقف اور اب تک انتخابی ٹربیونلز میںدائر عذرداریوں کی تعداد میں واضح فرق ہے۔ اس طور یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ انتخابی دھاندلیوں کی شکایات کے باوجود جس طرح پارلیمان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا گیا وہ قابلِ ستائش ہے یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے عمومی مزاج کے گو یکسر برعکس ہے لیکن جیسا بھی ہے جمہوری نظام کو آگے بڑھانے کیلئے یہی فیصلہ مناسب ہے۔ پی ٹی آئی کو ایوان میںاپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا جمہوری اور قانونی حق حاصل ہے،البتہ یہ احتجاج پارلیمانی روایات،جمہوری اقدار اور شائستگی کے دائروں میں رہے تو بہتر ہوگا۔ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف شکایات کی اصل جگہ الیکشن ٹربیونلز ہیں تحریک انصاف اپنے جن حمایت یافتہ امیدواروں کو دھاندلی سے شکست دلوانے کا مؤقف رکھتی ہے ان امیدواروں کو عذرداریوں کیلئے مقررہ وقت میں الیکشن ٹربیونلز سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ یہ تاثر دور ہو کہ 188نشستوں میں سے 88نشستیں چھینے جانے کا الزم ویسا ہی ہے ،جیسا قبل ازیں 2013ء کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان35پنکچر کا الزام لگاتے رہے بعدازاں انہوں نے اپنے اس الزام کو سیاسی بیان قرار دے دیا مگر ان کے ٹائیگرز آج بھی اس الزام کو نہ صرف درست سمجھتے ہیں بلکہ اس پر اپنے مؤقف کی عمارت بھی اٹھاتے ہیں ،ایسے میں بہت ضروری ہے کہ قانونی راستہ اختیار کیا جائے اور پارلیمان کے اندر ان فرائض کی بجا آوری پر توجہ دی جائے جن کیلئے رائے دہندگان نے انہیں ووٹ دیئے ہیں۔
تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کے جو عمومی حالات ہیں وہ کسی بھی طرح کی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سیاسی و معاشی عدم استحکام کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت نے معاشرے کے نچلے طبقات کیساتھ ساتھ سفید پوشوں او مڈل و اپر مڈل کلاس کی بھی چیخیں نکلوادی ہیں۔ اس پر ستم سابق نگران حکومت کے وہ بعض غیرقانونی فیصلے ہیں جو محض اختیارات کی دھونس سے مسلط کئے گئے یا یہ کہہ کر ان کا جواز پیش کیا گیا کہ یہ فیصلے آئی ایم ایف سے پی ڈی ایم حکومت کے طے کردہ معاملات کی روشنی میں کئے گئے۔ ہماری دانست میں یہ عمومی عوامی رائے درست ہے کہ بجلی، پٹرولیم، سوئی گیس کی قیمتوں میں نگران دور میں جو اضافہ ہوا اس معاملے کو قومی اسمبلی میں زیربحث لایا جائے۔ عوام کا منتخب کردہ ایوان یہ ضرور دیکھے کہ نگران حکومت کے یہ فیصلے کس برتے پر کئے گئے ،نیز یہ کہ ان فیصلوں سے عوام کی جو درگت بنی اور جو مسائل پیدا ہوئے ان کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟بالخصوص اس صورت میں جب اس طرح کی اطلاعات سامنے آرہی ہوں کہ آئی ایم ایف نے اگلے ہفتے ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے کچھ مزید شرائط بھجوائی ہیں۔ لگ بھگ 13سو ارب روپے کی مزید آمدنی کیلئے اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔ گو معالجین، وکلاء پراپرٹی ڈیلرز وغیرہ کو پروفیشنل و انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے کی تجاویز سوفیصد درست ہیں مگر یہ دیکھا جانا بھی ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ ورک زمینی حقائق کی روشنی میں بڑھانا ہے یا عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر؟ گزشتہ روز معیشت کی بحالی کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نومنتخب وزیراعظم نے ہدایت کی کہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے بات چیت فوری آگے بڑھائی جائے۔ اس امر پر دو آراء ممکن نہیں کہ فوری طور پر عالمی مالیاتی ادارے سے مزید قرض لینے کے علاوہ تین سال کیلئے خصوصی پیکیج کا حصول ناگزیر ہے مگر یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ حکمران سیاسی اتحاد کی جماعتوں کو معاشی پالیسی کے خدوخال وضع کرتے وقت اپنے اپنے منشور میں اس حوالے سے کئے گئے وعدوں کو بہر صورت پیش نظر کھنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران اپنی انتخابی مہم میں کہتے دیکھائی دیئے کہ حکومت سازی کا حق ملنے پر وہ قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرنے کی بجائے خودانحصاری کو فروغ دینے کیلئے مؤثر اقدامات کریں گے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب ان رہنمائوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق ایسی معاشی پالیسیاں وضع کریں جن سے خودانحصاری کو فروغ ملے۔ یہاں ہم اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف 2021 سے مسلسل اس امر پر زور دے رہا ہے کہ غیرضروری اخراجات میں کمی کی جائے۔ دفاعی شعبہ کی پنشن سول بجٹ سے واپس دفاعی بجٹ کا حصہ بنائی جائے۔ وفاقی محکموں، کارپوریشنوں اور دوسرے اداروں کی فاضل رقوم سٹیٹ بینک میں رکھی جائیں ۔ تحریک انصاف کے دور میں ان شرائط پر عمل کیلئے ہی سٹیٹ بینک کی خودمختاری کیلئے قانون سازی کی گئی تھی۔ اب یہ دیکھا جانا چاہیے کہ معاملات قانون سازی کے مطابق آگے کیوں نہیں بڑھ پائے۔ امید واثق ہے کہ حکمران اتحاد اور اپوزیشن ان امور کو نظرانداز کرنے کی بجائے ان کے حوالے سے قابل عمل فیصلوں اور مزید قانون سازی پر توجہ دیں گے تاکہ مسائل کے حل کیلئے بہتر راستے نکل سکیں۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے