ذوالفقار علی بھٹو کے افکار اور نظریات

تاریخ عالم نے اپنے سینے میں کیسی کیسی عظیم شخصیات کو چھپا رکھا ہے ان شخصیات نے ملک و قوم کے لیے ایسے کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ آج بھی وہ دنیا میں” زندہ ہے زندہ ہے ”کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ ان ہی نامور شخصیات میں ایک ہستی مسٹر ڈوالفقار علی بھٹو کی تھی جسکی ڈکشنری میں جھکنا اور بکنا نام کے الفاظ موجود نہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ تختہ دار پر لٹک گئے مگر استعماری طاقتوں کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا ۔
نظام قدرت ہر انسان کوجنم دیتا ہے اور آخر کار اسے اپنے انجام سے ہمکنار کرتی ہے ۔ کروڑوں انسان آتے جاتے رہتے ہیں لیکن جو اپنے وجود سے تاریخ رقم کر تے ہیں وہ ہمیشہ زندہ و تابندہ رہتے ہیں ۔ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کی ان ممتاز ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 51سال کے مختصر عرصے میں تاریخ کو ایک نیارخ دیا جسے تاریخ نے امتیازی طور پر ریکارڈ کیا ۔ ان کے فلسفے کا لب لباب یہ تھا کہ تمام انسان کے مقام کا تعین اس کی رضا اور مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہر شخص کو آدمیت کے مطابق وہ مقام حاصل ہونا چاہیے ۔
پاکستان کے حوالے سے ان کی بیشمار خدمات ہیں جس کا ریکارڈ میں تذکرہ کیا جاسکتا ہے ۔ شہید تاریخ کے طالب علم تھے اور اسی روشنی میں ان کے فکرو فلسفے کا ارتقا ہوا تھا ۔ جس ادراک نے انہیں مختصر سی زندگی میں وہ ممتاز مقام حاصل ہونے کا موقع فراہم کیا جو عالمی برادری میں انہیں حاصل ہوا ۔ انہوں نے اپنے ملک کی خدمت کی اور دنیا کو اپنے وژن کے مطابق مستقبل کی ایک نئی دنیا بنانے کی فلسفہ دیا ۔ وہ بین الاقوامی برادری میں مطلوم عوا م اور ان کے حقوق کے داعی تھے ۔ مشرق و مغرب کے جغرافیائی امتیاز سے بالا تر ہو کر انہوں نے اقوام کی برادر ی میں یہ پیغام پہنچایا کہ تمام اقوام متحد ہو کر مظلوم اور مفلوم الحا ل عوام کی جہدو جہد کی ضمانت فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دنیا کو اپنی سیاسی تقسیم سے بالا تر ہو کر اس سطح پر وہ مقام حاصل کرنا چاہیے جس کا تقاضا عوام الناس کرتے ہیں ۔ ان کے حقوق کی ضمانت ہونی چاہیے ۔ ترقی یافتہ اور زیر ترقی ممالک کی مابین اس نظریئے کو افضلیت حاصل ہونی چاہیے۔ اس طرح و ہ غیر جانبدار دنیا کے ممتاز قائد بن گئے۔ نہ صرف وزیر خارجہ کی حیثیت سے بلک وزیر اعظم اور ایک ایسے قائد جس نے پاکستان کو عالمی برادری میں احترم اور انفرادیت کے ساتھ متعارف کرایا اس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے ۔
۔پاکستان کی سیاست کے نشیب و فراز کا جائزہ لینے پر یہ حقیقت کھل کر آ شکار ہو تی ہے کہ ایک ایسا مسیحا بھی ملک کے حالات بدلنے کی جستجو میں صلیب پر گاڑ دیا گیا۔دنیا میں بڑے بڑے عظیم رہنما اور لیڈر پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی ذ ہانت کے بدولت اپنی قوم اور ملت کے لیے ناقابل تسخیر کارنامے سر انجام دیے جن کانام رہتی دنیا تک زندہ رہتا ہے ذہانت اور قیادت کی صلاحتیں اللہ کی خاص عنایت ہوتی ہیں تعلیم و تربیت اور وقت ان کو نکھارتا ہے ہم نے ایسی بہت سی شخصیات کو ناقدری کے ذریعے کھو دیا آج پاکستان کی حالت ایک مقروض اور دنیا سے مانگنے والی نہ ہوتی اگر ہم نے قائدانہ صلاحیت کی شخصیات کو ضائع نہ کیا ہوتا گردش لیل و نہار برسوں جاری رہتی ہے تو پھر کہیں جا کر شہید ذوالفقار علی بھٹو جیسی نایاب شخصیات اس دنیا رنگ و بو میں اپنے جوہر دکھانے کیلئے آتی ہیں ۔ فخر ایشیا قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کا عہد سیاست صرف بارہ سال پر محیط ہے جس میں 6سال ان کے عہد حکومت کے بھی شامل ہیں ان بارہ برسوں کی سیاست میں جناب بھٹو شہید کو وہ غیر معمولی عزت و شہرت نصیب ہوئی جو بڑے بڑے جفادری سیاست دانوںکو برسوں کی کوچہ گردی سیاست کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ بلاشبہ کروڑوں پاکستانیوں کو سیاست میں صرف جناب بھٹو کی شخصیت ہی نظر آتی ہے جو اپنی عظیم شہادت کے 44برس بعد بھی کروڑوں پاکستانیوںکے دلوں میں زندہ ہے ۔ وزیراعظم بھٹو شہید کا عہد حکومت 20دسمبر 1971 سے 4 جولائی1977تک محیط تھا انہوں نے ملکی ترقی کا سفر پیچھے سے شروع کیا اور صرف چھ سال کے قلیل عرصے میں اسے بام عروج تک پہنچا دیا ۔ ملکی ترقی و کمال کے بہت سے منصوبے شروع ہوئے اور پایہ تکمیل کو پہنچے ۔ مملکت خداداد کے تمام کلیدی ادارے بھٹو کے عہد حکومت میں ہی تشکیل پائے ۔ ان منصوبوں میں سر فہرست پاکستان کا جوہری پروگرام پاکستان سٹیل ملز معیشت کی بحالی تعلیمی اداروں کا وسیع جال میڈیکل کالجز زرعی اصلاحات انگریزی خطابات کا خاتمہ محنت کشوں کا تحفظ عوامی سیاسی شعور کی بیداری اور افرادی قوت کی بیرون ملک برآمدشامل ہیں ان کے دور حکومت میں ہی مملکت کو ایک متفقہ آئین 1973 نصیب ہوا ۔ ان کا ایک انمٹ اور زریں کارنامہ ہے 90سالہ قایادنی فتنہ بھی آپ کے دور حکومت میںختم ہوا ۔ قادیانی آئین پاکستان کی رو سے غیر مسلم قرار پائے ۔ آئین میں مسلمان کی متفقہ تعریف شامل کی گئی صدر وزیراعظم اور دیگر تمام کلیدی عہدوں کیلئے مسلمان ہونا ضروری قرار پائے ۔ ختم نبوت کے اقرار کو ہر کلیدی عہدے کے حلف نامے میںشامل کیا گیا ملک عزیز میں پہلی بار شناختی کارڈ کا اجرا کیا گیا عوام کو پاکستانی شناخت دی گئی ۔ الغرض ملکی تعمیر و ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا ۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے مفادات کا کسی کو خیال بھی ہے