مارگئی مہنگائی بے نواوں کو

چنددن قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ مہنگائی گزشتہ دو سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں مجموعی طور پر مہنگائی 20.7فیصد ہے۔ شہری مراکز میں 16.6جبکہ دیہات اور قصبوں میں 17فیصد۔ مہنگائی میں کمی کی وجہ شرح تبادلہ کے مستحکم ہونے کو قرار دیا گیا ہے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزارت خزانہ کو توقع تھی کہ مہنگائی 23.5فیصد کی شرح پر رہے گی مگر مسلسل تیرے مہینے میں بھی مہنگائی میں کمی جارہی ہے۔ رپورٹ مرتب کرتے ہوئے محض وزارت خزانہ کی کسی دستاویزات کو سامنے رکھا گیا یا پھر عام مارکیٹ میں گزشتہ تین ماہ کے عمومی نرخوں میں اتار چڑھائو پیش نظر رہا؟ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ وزارت خزانہ کی توقع کے برعکس مہنگائی میں کمی کی نوید دینے والی رپورٹ کے مرتب یا مرتبین غالباً اس حوالے سے لاعلم ہیں کہ یہ رپورٹ پچھلے تین ماہ کے دوران وفاقی ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وفاقی ادارہ شماریات کی رواں برس کے ابتدائی تین ماہ کی ہفتہ وار رپورٹوں سے تو اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوا۔ مارچ کے وسط میں مہنگائی کی مجموعی شرح 34.7فیصد تھی۔ مارچ کے وسط کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے ناکہ کمی ہوئی۔ مثال کے طور پر جنوری میں پیاز 120روپے کلو تھے فروری میں 180روپے، مارچ میں رمضان المبارک کے آغاز تک یہی نرخ دوچار روپے اوپر نیچے رہے مگر رمضان المبارک کے آغاز پر پیاز کی فی کلو قیمت 250روپے ہوگئی اس وقت بھی یہ نرخ 280سے 300روپے تک ہیں۔ اسی طرح مارچ کے تیسرے ہفتے میں بھنڈی 500روپے کلو تھی۔ ٹماٹر گزشتہ روز 140سے 160روپے کلو فروخت ہوئے۔ آلو80روپے سے 110روپے۔ مختلف شہروں اور ان کے درجہ بندی میں آئے علاقوں کے نرخوں میں موجود عدم توازن اپنی جگہ مگر یہ امر دوچند ہے کہ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ محض یہ کہہ کر تسلی نہیں دی جاسکتی کہ رمضان المبارک کے ایام میں مہنگائی کا بڑھنا ہمارے ہاں کا عمومی رجحان ہے۔ ایسا یقینا ہے لیکن کیا رمضان المبارک سے قبل مہنگائی کم تھی یا عیدالفطر کے بعد اس کی شرح میں کوئی کمی ہوگئی۔ہر دو باتوں کا جواب نفی میں ہی ہے وجہ اس کی یہی ہے کہ سیاسی او معاشی عدم استحکام نے پچھلی حکومت کی طرح فروری میں بننے والی حکومت کو بھی حقیقی مسائل پر توجہ دینے کا وقت اور موقع نہیں دیا۔ یہ درست ہے کہ اس عرصہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے غریب طبقات کو ریلیف دینے کیلئے بھاری رقوم مختص کیں۔ ایک اندازے کے مطابق وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں نے غریب طبقات کیلئے رمضان المبارک میں لگ بھگ 100ارب روپے مختص کئے۔ 50 فیصد غربت والی آبادی کی شرح کے حساب سے یہ ایک سو ارب روپے کتنے خاندانوں کو ریلیف دے پائیں گے؟ اس سوال سے قطع نظر بنیادی بات یہ ہے کہ معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کی دادرسی و بحالی حکومتوں کا فرض ہوتا ہے مگر حکومت کی اصل ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سماجی عدم توازن کے خاتمے کیلئے ایسے اقدامات کرے جن سے تمام طبقات کو ریلیف ملتا محسوس ہو۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور پھر بجلی کے نرخوں میں جو اضافہ ہوا قبل ازیں سوئی گیس کی قیمت بڑھائی گئی۔ کیا یوٹیلٹی بلز میں ہو نے والا اضافہ صرف صارفین تک محدود رہے گا؟ ہماری دانست میں بوجھ صرف صارفین تک محدود رہنے کی سوچ درست نہیں کیونکہ ان چیزوں کی قیمت بڑھنے سے پیداواری اخراجات کے ساتھ مال برداری کے اخراجات بھی بڑھتے ہیں ۔ سرمایہ کار، کمیشن ایجنٹس یا دکاندار یہ اضافی قیمتیں کیونکر برداشت کریں گے ظاہر ہے کہ اس کا تمام تر بوجھ عام شہری پر ہی منتقل ہوگا۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسے مہنگائی میں کمی کی رپورٹ مرتب کرنے والوں نے پیش نظر نہیں رکھا۔ مندرجہ بالانکات پر تفصیل کے ساتھ حقیقت حال بیان کرنے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ ملک میں کسی بھی حوالے سے سب اچھا نہیں ہے ۔ سیاسی عدم استحکام سے زیادہ خطرناک مہنگائی سے بدتر ہوئے لوگوں کے حالات ہیں اسی طرح یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ زیادہ نہیں تو رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران ملک کے چاروں صوبوں میں جرائم کی شرح میں کس تناسب سے اضافہ ہوا کیونکہ سٹریٹ کرائم کو مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اندریں حالات یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوںکو بدترین مہنگائی بے پیدا شدہ صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔یہ دیکھا جانا بھی ضروری ہے کہ صنعتوں کے پیداواری عمل میں کتنی کمی ہوئی اور اس کے اسباب کیا ہیں۔ دیہاڑی دار مزدور کو سات دنوں میں پانچ کی بجائے تین دن روزگار کیوں مل رہا ہے۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی دیکھا جانا چاہیے کہ مہنگائی او دوسرے مسائل کی وجہ سے زندہ درگور ہوئے شہریوں کے زندگی اور حالات کی تبدیلی پر یقین کو کیسے بحال کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی