معاشی مشکلات میں اضافہ

آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط آسان نہیں ہوں گی۔توقع کی جارہی ہے کہ اس مہینے آئی ایم ایف سے اگلی قسط مل جائے گی آئی ایم ایف پروگرام کے لیے شرائط آسان نہیں ہوں گی لیکن اس کے بغیر بھی گزارہ نہیںدریں اثناء ورلڈ بینک نے پاکستان ڈیویلپمنٹ اپڈیٹ میں پنشن اصلاحات پر وفاقی اور صوبائی پبلک سیکٹر کی پنشن سے پیدا ہونے والے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لئے فوری طور پر اصلاحات متعارف کروانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ عالمی بینک نے بجلی گیس سیکٹر میں نرخوں کے حوالے سے اصلاحات کو رسدی لاگت کے ساتھ منسلک رکھنے کا بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ بجلی اور گیس کے شعبے میں بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کو محدود کیاجاسکے اور غریبوں کو سوشل پروٹیکشن کو بڑھا کر تحفظ دیاجائے۔ پرسنل انکم ٹیکس کی ریونیو اصلاحات پر، عالمی بینک نے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار ملازمین کے لئے سکیمیں ترتیب دے کر پیچیدگی کو کم کرنے کے لئے ذاتی انکم ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق مراعات یافتہ طبقے کو ختم کرکے ایکویٹی بڑھانے کے لئے مخصوص آمدنی کے ذرائع کا علاج اور قابل ٹیکس آمدنی کے ذرائع میں شرح کے ڈھانچے کو ہم آہنگ کرکے ذاتی انکم ٹیکس کے نظام الاوقات میں اصلاحات کی جائیں۔امر واقع یہ ہے کہ پاکستان کو گزشتہ کئی سالوں سے جس طرح مسلسل اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے اس کے حل میں تو درکنار اس میں کمی لانے کی مساعی میں بھی کامیابی نہیں ہو سکی ہے یہ صورتحال گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جارہی ہے معاشی مشکلات ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ اور عوام کے لئے مایوس کن صورتحال کا باعث بنتے جارہے ہیں ان کی وجوہات صرف معاشی ہوتیں تو عوام اسے مجبوری سمجھ کر جھیلتے مگر یہاں معاملات کے حل کی ذمہ داری جن کاندھوں پر عائد ہوتی ہے وہی بدقسمتی سے معاشی انحطاط کے اسباب کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں پاکستانی تاریخ میں اقتصادی ترقی اور ناکامیوں کے ادوار کا جو تجربہ کیا ہے اس میں سیاسی عدم استحکام فوجی حکمرانوں کے ادوار سرفہرست ہیں جو ملکی عوامی معاملات پر توجہ دے کر ان کو حل کرنے کی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے دیگر عوامل میں زیادہ دلچسپی کے حامل تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل بڑے مالیاتی خساروں کا شکار رہا جہاں بدقسمتی سے حکومتی اخراجات محصولات سے زیادہ ہیں اور یہ خسارہ ملکی قرضوں کے بحران کا بنیادی سبب ہے معاشی بدحالی کے اثرات مہنگائی در مہنگائی کی صورت میں سامنے آتے گئے اور موجودہ حکومت ہو یا ماضی کی حکومتیں سبھی کے پاس بوجھ کو عوام پر منتقل کرنے کا ایک ہی فارمولہ رہا ہے موجودہ حکومت بھی اسی فارمولے پرعمل پیرا ہے ملک میں امن و امان کی صورتحال اور بعض حکومتی پالیسیوں اور بدعنوانیوں کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آتی گئی انتہا یہ کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا بڑا منصوبہ بھی خطرے میں ہے وسیع پیمانے پر ٹیکس چوری اور غیر دستاوی رسمی معیشت کے باعث حکومتی محصولات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو پاتا ۔ ان حالات میں حکومت کو اس امر پر توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے کہ مالیاتی خسارے میں کمی لانے اور عوامی مالیات کو ذمہ داری کے ساتھ منظم کرنے کے لئے موثر حکمت عملی اپنائے بغیر معاشی منصوبہ بندی کرکے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے ۔ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ٹیکس چوری کی روک تھام اور ٹیکس نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے ۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور کاروبار کے لئے ساز گار ماحول پیدا کرنا ناگزیر ہے اس صورتحال میں علاقائی تجارتی معاہدوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کویقینی بنانے کے لئے دو طرفہ تعاون کے ساتھ طویل مدتی اقتصادی منصوبوں کو تیار اور ان پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کی پاکستان کی معاشی بہتری کے حوالے سے تجاویز قابل عمل اور اس لئے موزوں ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ حکومت پارلیمانی اور فوجی آمدنی پر ٹیکس چھوٹ ختم کرے اور ٹیکس دہندگان کے حوصلوں کو مجروح کرنے کے باعث امتیازی طبقات سے بھی ٹیکس وصولی کا عمل شروع کرے۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مسلسل دبائو اور بڑھتے قرضوں کا بوجھ معاشرے کے ہر طبقے پر منتقل کرنے سے اب متوسط اور نچلے طبقے کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے جبکہ سماجی اضطراب میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے ان حالات سے نکلنا صرف حکومت کے بس کی بات نہیں بلکہ تمام ملکی اداروں اور کاروباری برادری سے لے کر سیاستدانوں اوربیوروکیسی سبھی کواپنے اپنے مقام پرملکی مفاد میں اپنے ذمہ دارانہ اور دیانتدارانہ کردار کی ادائیگی کو یقینی بنانا ہوگا ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام دونوں بھی لازم و ملزوم ہے جو وسیع تر قومی مفادات کے ادراک اور اس کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال