کہیں انڈیا آوٹ تو کہیں اِن

عین انہی لمحوں جب پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار لندن میں یہ بیان دے رہے تھے کہ پاکستان پر بھارت سے تجارت کیلئے کچھ حلقوں کا دباو ہے اور ہم تجارت شروع کرنے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں تو عین اسی وقت سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش بھارت کی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم چلا رہا تھا ۔دوسرے لفظوں میں یہ اقتصادی مقاطع کی عوامی تحریک اور کوشش ہے جسے کئی سماجی راہنماوں کی کھلی اور کچھ سیاسی جماعتوں کی درپردہ حمایت حاصل ہے ۔ بنگلہ دیش کے حالیہ الیکشن میں نریندر مودی کا شیخ حسینہ واجد کی طرف واضح جھکاو بنگلہ دیش میں بھارت کے عزائم کو عیاں کر گیا ہے ۔ان انتخابات سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے یہ لکھنا شروع کیا تھا کہ بھارت بنگلہ دیش کے انتخابات سے الگ نہیں رہ سکتا اور مودی حکومت کو ان انتخابات میں حسینہ واجد کی حمایت کرنی چاہئے ۔اس بار یوں لگ رہا تھا کہ امریکہ بھی بنگلہ دیش میں چین کے کچھ بڑے منصوبوں کے آغاز پر حسینہ واجد سے خوش نہیں اور وہ انتخابات میں انہیں اس بات کی سزا دینا چاہتا ہے مگر نریندر مودی حکومت نے امریکہ کی پروا کئے بغیر بنگلہ دیش کے انتخابات میں حسینہ واجد کی حمایت کی اور چین بھی اپنا وزن اسی پلڑے میں ڈالتا ہوا نظر آیا ۔بنگلہ دیش بھی جنوبی ایشیا اور سارک کی غیر فعال تنظیم کے ان رکن ممالک میں شامل ہیں جہاں بھارت کی بالادستی کی خواہش اور چھوٹے ملکوں پر مسلط ہونے کوشش کیخلاف بیزاری کے جذبات بڑھتے جا رہے ہیں۔دوسرے ملکوں کی طرح بنگلہ دیش بھی بھارت اور چین کی کھینچا تانی کی زد میں آرہا ہے ۔جنوبی ایشیائی ملکوں میں پاکستان وہ واحد ملک تھا جو بڑی حد تک بھارت کے اثر رسوخ سے باہر تھا بلکہ بھارت کے بالادستی کے منصوبوں کا اعلانیہ ناقد تھا ۔یہی وجہ یہاں چین اور بھارت کی مسابقت کا ماحول نہیں بن سکا اور یوں پاکستان چین اور بھارت کی اقتصادی یا سٹریٹجک کشمکش کا میدان نہ بن سکا مگر یہ کمی امریکہ نے پوری کر دی جو اپنے مطالبات کے ساتھ پاکستان کے آگے کھڑا ہے اور جن میں خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجییح دینے کی بات سر فہرست ہے۔پاکستان کیلئے اس مطالبے کو من وعن قبول کرنا مشکل ہے اور یوں عملی طور پر چین اور بھارت کی علاقائی کشمکش کی بالواسطہ زد پاکستان پر بھی پڑ رہی ہے ۔اسی لئے جب اسحاق ڈار نے بھارت سے تجارت شروع کرنے کی یکطرفہ بات کی تو بھارت نے اس بات کو سرے سے قابل تبصرہ ہی نہیں جانا مگر پاکستان میں بہت سوں کا ماتھا ضرور ٹھنکا کہ یہ بھارت کو بہت نیچے آکر تعلق اور تعاون کی پیشکش ہے، دوسرے لفظوں میں اسے سرینڈر ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے میں یہ بات قعطی ناقابل فہم ہو جا تی ہے کہ جب سارک کے ملکوں میں عوامی سطح پر بھارت کو اپنے ہاں سے بے دخل کرنے کی مہمات چل رہی ہیں پاکستان اس اقتصادی اونٹ کو اپنے خیمے میں سر دینے کیلئے کیوں ہلکان ہو رہا ہے؟ بی بی سی نے بنگلہ دیش میں شروع ہونے والی انڈیا آوٹ مہم کے حوالے سے ایک اہم رپورٹ شائع کی ہے جس کا آغاز ہی ہوں ہوتا ہے میرا سوال ہے کہ ان کی بیویوں کے پاس کتنی انڈین ساڑھیاں ہیں؟ وہ اپنی بیویوں سے یہ انڈین ساڑھیاں لے کر انھیں جلا کیوں نہیں دیتے؟یہ سوال بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ملک میں حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی )بی این پی(کے بعض رہنمائوں کی جانب سے انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبے کے جواب میں کیا ہے۔اور وزیر اعظم حیسنہ واجد نے بس اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی جماعت عوامی لیگ کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا سے آنے والے گرم مصالحے، پیاز، لہسن اور دیگر اشیا بھی اپوزیشن )بی این پی( رہنماں کے گھروں میں نہیں نظر آنے چاہییں۔بنگلہ دیش کے اخبار ڈیلی سٹار کے مطابق شیخ حسینہ کے یہ طنز سے بھرے ریمارکس حزب اختلاف کے رہنما روح الکبیر رضوی کی جانب سے انڈین مصنوعات کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر اپنی کشمیری شال سڑک پر پھینکنے کے بعد سامنے آئے ہیں۔بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے ریلیاں نکلتی دیکھی جا رہی ہیں ۔بنگلہ دیش میں یہ پیش رفت انڈیا آٹ مہم کے پس منظر میں دیکھی جا رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں یہ مہم کچھ انفلوئنسرز، سماجی کارکنوں اور اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات کی طرف سے شروع کی گئی ہے جسے عوام اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کے ایک حصے کی حمایت حاصل ہے۔ اس مہم نے اپوزیشن بی این پی کی طرف سے بائیکاٹ کیے جانے والے انتخابات میں عوامی لیگ کی حالیہ کامیابی کے بعد زور پکڑا ہے۔مہم کو چلانے والے اتحاد پیپلز ایکٹیوسٹ کولیشن کی ایک ویڈیو کو چند روز قبل ایک صارف نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے جس میں انڈیا آٹ مہم کے کے تحت انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ پر بات کی گئی ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ سال انڈیا کے ایک اور پڑوسی ملک مالدیپ میں انڈیا آٹ کے نعرے پر صدارتی انتخاب کی مہم چلانے والیمحمد معیزو نے انڈیا حامی کہلائے جانے والے صدر محمد صالح کو شکست دے کر صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔اور اس کامیابی کے بعد محمد معیزو نے چین کے ساتھ قربت بڑھائی اور انڈیا کو مالدیپ سے سکیورٹی کے نام پر موجود افواج کو ہٹانے پر مجبور کیا، جسے اب مرحلہ وار طور پر ہٹایا جا رہا ہے۔تو کیا اب بنگلہ دیش میں بھی ایسی کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے؟اگرچہ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی جماعت بی این پی کے کچھ سرکردہ رہنماں جیسا کہ مسٹر رضوی نے اس مہم کی حمایت کا اظہار کیا ہے تاہم پارٹی نے ابھی تک اس پر باضابطہ اپنا موقف واضح طور پر بیان نہیں کیا ہے۔ٹیلی گراف اخبار کے مطابق بی این پی کے میڈیا سیل کے رکن اور رہنما سائرالکبیر خان نے کہا ہے: ہماری پالیسی ساز تنظیم نے اس معاملے پر بحث کی ہے کیونکہ کچھ رہنمائوں نے بائیکاٹ کی کال پر پارٹی کے موقف کی وضاحت چاہی تھی۔ لیکن ابھی تک ہماری پارٹی کا اس پر کوئی باضابطہ موقف نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ عوام کی طرف سے ایک کال ہے اور ہمارے کچھ رہنما اس کی حمایت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو