اعلیٰ ترین سطح کی سکیورٹی

وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی سکیورٹی کے اجلاسوں کا ہر ماہ خود جائزہ لینے کا فیصلہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں اسلام آباد سے داسو میں موجود ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیراتی سائٹ پر جاتے ہوئے بس پر ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 5چینی انجینئرز اور ان کے پاکستانی ڈرائیور کی ہلاکتوں کے بعد اٹھائے جانے اقدامات کا حصہ ہے۔پاکستان میں اہم منصوبوں میں چینی ماہرین کا تحفظ یقینا اہم مسئلہ ہے جن کونشانہ بنا کر دشمن پاک چین اقتصادی تعاون میں رکاوٹ اور اہم چینی منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں روڑے اٹکانے کے درپے ہے متعدد مرتبہ چینی ماہرین کو نشانہ بنائے جانا اور سکیورٹی حکام کی اس عمل کو روکنے میں ناکامی کے بعد غیر رسمی طور پر چینی ماہرین کی سکیورٹی کے لئے خود چین کی جانب سے عملے کی فراہمی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں اس امر کی روایت نہیں کہ کوئی ملک دوسرے ملک میں سکیورٹی کے لئے اپنا عملہ تعینات کرے لیکن جس طرح کی غفلت اور کسی حد تک ناکامی کی صورتحال سامنے ہے وزیر اعظم کی جانب سے اس صورتحال کا خود جائزہ لینے کے اعلان سے وہ واضح سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ذمہ داری بھی وزیر اعظم ہی نے نبھانا ہے تو پھر درجن بھر اداروں کی کارکردگی و مہارت کا کیاحاصل؟ بہرحال اعلیٰ ترین سطح کی یقین دہانی ہی شاید اس کا آخری حل رہ گیا تھا کیونکہ چین اس وقت پاکستان کی معیشت کی ترقی میں جو کردار ادا کر رہا ہے اور سی پیک کے مختلف منصوبوں کے تحت چینی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان کے ایک حقیقی ہمسایہ اور دوست ہونے کا جو ثبوت دے رہا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان چینی انجینئرز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے ساتھ ساتھ چینی سرمایہ کاروں کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی جائے۔بشام کے واقعے کے بعد جو ایس او پیز جاری کی جا چکی ہیں وہ خاصے موثر اور سنجیدہ نوعیت کے ہیں جس کے تحت سی پیک پر کام کرنے والے چینی باشندوں کو بغیر بلٹ پروف گاڑی کہیں جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ چینی باشندے بغیر حفاظتی اقدامات کے نقل و حرکت سے متعلق فوری طور پر متعلقہ اداروں کو مطلع کریں گے۔ چینی باشندوں کی نقل و حرکت سے متعلق تمام متعلقہ ادارے ایک دوسرے سے اضلاع کی سطح پر رابطے میں رہیں گے، جبکہ غیر ملکیوں کے لئے پہلے سے طے شدہ ایس اوپیز پر بھی عملدرآمد کیا جائے گا۔صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے ایک ڈویژن موجود ہے جس کی سربراہی پاک فوج کے ایک میجر جنرل کرتے ہیں۔اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں پولیس کا بھی ایک سی پیک یونٹ ہے جو چینی شہریوں کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہے اور اس کے علاوہ فرنٹیئر کانسٹبلری کو بھی اکثر اوقات تعینات کیا جاتا ہے۔لیکن اتنے انتظامات کے باوجود بھی افسوسناک واقعات کا مکمل تدارک نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔چینی حکومت اپنے ملک کے باشندوں کی سلامتی و حفاظت کے حوالے سے بہت حساس ہے دوسری جانب سے ان کو اس طرح کے واقعات کے بعد جو یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں اور جن اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے اس طرح کے کسی واقعے کے بعد ان کے اقدامات کا عقدہ کھلتا ہے کہ وہ پورے نہیں تھے بہرحال اصل بات یہ ہے کہ ان کو سکیورٹی دینے میں بار بار ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے اور ہر بار نئے طریقے سے نشانہ بننے والوں کے تحفظ کے لئے فول پروف انتظامات کیوں نہیں ہوتے جس طرح کی سکیورٹی اور پروٹوکول حکمرانوں کو ملتا ہے اس سے کہیں زیادہ حفاظتی حصار کی چینی ماہرین کو ضرورت بھی ہے اور ان کو ملنی بھی چاہئے ہر بار اعلیٰ ترین سطح پر وعدے ملاقاتیں ، تعزیت اور ہمدردی کا اظہار اور مزید یقین دہانیوں کا لاحاصل سلسلہ اب بند ہونا چاہئے چینی باشندوں کی آمد ورفت کی راز داری کا بطور خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے نیز جن راستوں سے ان کو گزرنا ہوتا ہے اس کے تناظر میں ان کی حفاظت کا موزوں بندوبست ہونا چاہئے سڑکیں کلیئر کرنے کے ساتھ ساتھ چینی قافلوں کو دیگر طریقوں سے نشانہ بنانے کے خطرات و امکانات کے سدباب کے لئے بھی خصوصی حفاظتی حصار کا انتظام ضروری ہو گیا ہے ۔ تمام امکانات و خطرات پر مشترکہ طور پرغور کرکے عملی اقدامات یقینی بنائے جائیں تاکہ اہم منصوبوں کی بار بار بندش و معطلی کی نوبت نہ آئے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو