اب جو خط آنے لگا، شاید کہ خط آنے لگا

گل ودھ گئی اے مختاریا ، یعنی وہ جو چند روز پہلے مشکوک خطوط کا سلسلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو ملنے سے آغاز ہوا تھا، اب اس کے ڈانڈے پھیلتے پھیلتے نہ صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ تک دراز ہونے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیںدم تحریر ایک اور جج کو بھی پیکٹ موصول ہونے کی اطلاع ہے اگر چہ اس بات پر شکر ادا کرنا چا ہئے کہ تادم تحریر یہ خطوط باقی تین ہائی کورٹس یعنی سندھ ، پشاور اور بلوچستان ہائی کورٹس تک نہیں پہنچا اور یہ تینوں محفوظ ہیں، یہ الگ بات ہے کہ الٹا پشاور ہائی کورٹ کے اپنے چیف جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز پہلے ایک شکایت بھرا مکتوب چیف جسٹس کو ارسال کرتے ہوئے ”دعویٰ” کیا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اپنے آبائی صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کر دیا ہے جو بقول شکایت کنندہ کے ان سے جونیئر ہے، اب اس دعوے کی صداقت کیا ہے اس سے قطع نظر یار لوگوں نے پشاورہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دعوے کا کھوج لگاتے ہوئے کہا ہے کہ موصوف کا نمبر سینیارٹی کے لحاظ سے ملک بھر میں مبینہ طور پر27واں ہے اس لئے انہیں 26حج صاحبان پر فوقیت دیتے ہوئے کیسے سپریم کورٹ میں تعینات کیا جا سکتا ہے ؟ یوں اگر” کھو جیوں ”کی اس بات سے اتفاق کیا جائے تو پھر بلوچستان ہائی کورٹ کے جن محترم جج کو سپریم کورٹ میں بقول جسٹس ابراہیم خان ان سے جونیئر ہوتے ہوئے انڈکٹ کیا گیا ہے، ان کا نمبر سینیارٹی کے لحاظ سے کیا ہے ؟ اور اگر وہ واقعی سینیارٹی لسٹ میں سب سے اوپر نہیں ہیں تو انہیں کیوں فوقیت دی گئی ؟ خیر جانے دیں اس شکایتی خط کا ان خطوط سے کوئی تعلق واسطہ نہیں بنتا جن کی وجہ سے ملک بھر میں سنسنی پھیل رہی ہے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس حوالے سے پہلے حکومت کو انکوائری کمیشن مقرر کرنے کا ٹاسک سونپ دیا تھا ، جس پر بعض حلقوں نے (تعلق نہ ہوئے ہوئے ) اعتراضات اٹھانے شروع کر دئیے تھے، تاہم معاملہ یہاں بھی نہیں رکا یعنی جب ایک سات رکنی بنچ کے قیام کا اعلان کیاگیا تو اس پر بھی اعتراض کیا گیا کیونکہ بقول بعض واقفان حال وی لاگرز اور سینئر صحافیوں کے اسلام آباد کے متعلقہ جج صاحبان کے مبینہ طور پر پھنس جانے کے بعد انہی سیاسی حلقوں نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا جس کو تسلیم کرکے اصل حقائق جانچنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا اس وجہ سے ہم نے کالم کے آغاز میں گزارش” گل ودھ گئی اے مختاریا” سے کی تھی۔ گویا اب یہ معاملہ اس روایتی کمبل کی صورت” متعلقین” کے جان نہ چھوڑنے تک جا پہنچا ہے ، سو دیکھتے ہیں کہ بالآخر صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اگر چہ ان خطوط میں آرسینک پائوڈر کے ساتھ خطرے کے نشان والی وہ علامتی تصویر بھی موجود ہے جوعام طور پر بجلی کے ان لائنوں سے لوگوں کوخبردار کرنے کے لئے ایک کھوپڑی دو ہڈیوں کے اوپر کراس کا نشان بناتے ہوئے لگائی جاتی تھی اور نیچے یہ الفاظ درج ہوتے تھے کہ خطرہ 440 ، ہوشیار ،مگراس سے مرزا غالب کے اس شعر کا کوئی حوالہ نہیں بنتا کہ
چند تصویر بتاں ، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ سامان نکلا
حالانکہ جب اس حوالے سے پہلی خبر آئی تھی تو اس کے حوالے سے مکتوب بھیجنے والے کا نام کسی خاتون کا تھا جبکہ مکتوب الیہ اسلام آباد کے چھ جج صاحبان تھے ، بعد میں مزید خطوط میں ایک مرد کا نام بھی سامنے آیا ، مگرکوئی عقل کا اندھا ہی ہوگا جو ان خطوط کے لکھنے والوں کے ناموں کو ”اصل”تسلیم کرنے کوتیار ہوگا کیونکہ ایسی ”وارداتیں” اصل ناموں سے تھوڑی کی جاتی ہیں اور دیکھا جائے تو اس شعر کو بھی اس پر منطبق نہیں کیا جا سکتا کہ
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
کیونکہ یہاں معاملہ عشق وشق سے کہیں آگے جا کر ”دشمنی وشمنی” کی سرحدوں میں داخل ہوتی دکھائی دیتی ہے بلکہ داغ دہلوی کی ایک مشہور غزل کے دو اشعار کوحوالے کے طور پردیا جاسکتا ہے کہ
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کاتھا؟
نہ تھا رقیب تو آخر یہ نام کس کا تھا؟
وہ قتل کرکے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کا م کس نے کیا ہے ، یہ کام کس کا تھا؟
یہ تو مقام شکر ہے کہ مکتوب ہائے الیہ میں سے کسی کو گزند نہیں پہنچا حالانکہ آج سے تقریباً 23برس پہلے یعنی 2001ء میں ایک بروس آئیونیس نامی ایک امریکی سائنسدان(جس کا تعلق آرمی سے تھا) نے اینتھریکس نامی پائوڈر سے مزیں خطوط ارسال کرنے کی ابتداء کی تھی جس سے پانچ افراد ہلاک جبکہ متعدد دیگر متاثر ہوئے تھے شنید ہے کہ اینتھریکس نامی کیمیکل سے خطرناک بیماری پھیلتی ہے اور موت کا سبب بن جاتی ہے جس زمانے میں بروس آئیونیس نے یہ خطوط اہم امریکی شخصیات کو ارسال کئے اور ان خطوط کے کھولنے سے جو نتائج برآمد ہوئے اس سے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا تھا ، بعد میں ان خطوط کا ارسال کنندہ بروس آئیونس اپنے ہی گھر میں 27 جولائی کو بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا ہے جسے ہسپتال منتقل کیا گیا مگر صرف دو رز بعد یعنی 29 جولائی 2008 کو انتقال کر گیا اس کی موت کے حوالے سے ہسپتال انتظامیہ نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے ٹیلی نول اور کوڈین کی زیادہ مقدار کااستعمال کیا تھا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی تھی اور سرکاری طور پر اس واقعے کو خود کشی قرار دیاگیا ، گویا ایک فارسی مقولے کے مطابق صورتحال چاہ کن ، را چاہ درپیش ، یعنی جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے اس خطرناک کیمیکل یعنی اینتھریکس سے بچائو ممکن ہے بشرط یہ کہ متاثرہ شخص کو ورید یعنی رگ میں اینٹی بائیو ٹیکس کا انجکشن بروقت لگا دیا جائے ویسے اب تک جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق محولہ خطوط میں پائوڈر بھیجا گیا ہے وہ کوئی خطرناک نہیں تھا ، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن افراد کو اس سے ”الرجی” والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور ان کو ہاتھوں اور چہرے پر جلن محسوس ہوئی تو وہ کیا تھا؟ اور سب سے اہم یہ کہ ان خطوط سے مکتوب کنندہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا ، اس لئے تفتیش کے بعد ہی وثوق کے ساتھ کچھ کہا جا سکے گا سو دیکھتے ہیں کہ تحقیقات کے بالآخر نتائج کیا نکلتے ہیں اور ان خطوط کے پیچھے کون ہے ؟ کہ بقول احمد مشتاق
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقین رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی