عیاشیوں کی دعا

سابقہ سینیٹر طلحہ محمود کے جے یو آئی چھوڑ کر پیپلز پارٹی جائن کر نے پر کچھ لوگ حیرت اور کچھ دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک تو اس میں حیرت یا دکھ کی کوئی بات نہیں۔پاکستان میں نظریاتی سیاست کہاں باقی رہ گئی ہے جو اس کا نوحہ کیا جائے ؟ طلحہ صاحب کے پاس پیسہ تھا اور جمعیت کے پاس پارلیمنٹ کی سیٹ۔ نئی صورتحال میں جمعیت کے پاس بانٹنے کیلئے کچھ بھی نہیں۔ جب کہ زرداری صاحب کی نئی اٹھان اور ” قبولیت”کے بعد وہاں تو چھوٹی موٹی وزارت کی گنجائش بھی نکل سکتی ہے۔اس لئے پرندہ اب یہ شاخ چھوڑ کراس شاخ پہ جا بیٹھا موسمی پرندوں کا تو کام ہی اڑنا ہے۔
ویسے طلحہ صاحب کے ہاں ناشتہ بڑا زبردست ملتا ہے۔ مجھے بھی ایک دفعہ پارلیمنٹ لاجز میں طلحہ صاحب کے ہاں ناشتہ کرنے کا موقع ملا۔انواع و اقسام کے کھانے۔ افسوس ہوا کہ ایک شاپر کیوں ساتھ نہیں لے گیا۔میز بانوں کی آنکھ بچا کر دو چار ہفتے کا ناشتہ گھر لے آتا۔تو دنیا سنبھل جاتی۔۔آخرت کی کس کو پرواہ۔اللہ غفور و رحیم ہے۔ کمزور صحت افراد سے گزارش ہے کہ چند دن طلحہ صاحب کے ہاں ناشتہ کرکے اپنی جسمانی صحت بہتر بنائیں۔روحانی صحت کی پرواہ نہ کریں۔وہ تو آنی جانی چیز ہے۔ اور روح نے بھلا کس کے ساتھ آج تک وفا کی ہے۔
یہ ق لیگ کا دور حکومت تھا۔دسترخوان پر قائد جمیعت علماء اسلام مولانا فضل الرحمان اور ق لیگ کے سربراہ وسابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے علاوہ دو تین افراد اور بھی موجود تھے۔چودھری شجاعت حسین دوستوں کے دوست پیارے اور خاندانی آدمی ہیں۔مجھے بار بار کہتے رہے۔کہ ڈاکٹر صاحب آپ ناشتہ کیوں صحیح نہیں کر رہے۔ چودھری صاحب سے عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی۔ سیاست میں برد باری ‘ تحمل اور برداشت کو فروغ دینے والے اور فوج سے بنا کر ملک و قوم کی خدمت کرنے والے چودھری شجاعت حسین بہت سوں کیلئے قابل تقلید ہیں۔ وہ اپنی میٹھی باتوں سے فوج تو کیا فوج کے پردادا سے بھی اپنی مرضی منوانے کا ہنر جانتے ہیں۔کچھ لوگ خواہ مخواہ فوج سے مستقل دشمنی پالنے کے شوقین ہیں۔حالانکہ فوج میں کون ہیں ؟ ہمارے ہی بیٹے ‘ بھانجے اور بھتیجے۔باہر سے کوئی نہیں آیا۔سب ہمارا ہی خون ہے۔ فرنگیوں کو سلیوٹ مارنے والے اور فرنگیوں کے حکم پر خانہ کعبہ تک کو گولیاں مارنے سے نہ کترانے والے صاحبان قبرستان پہنچ گئے ہیں۔اس وقت تو فوج میں داڑھی رکھنے والے کو بھی ترچھی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ فوج کی نئی نسل سبز ہلالی پرچم تلے پاکستان زندہ باد کے ترانے گاتی ہوئی پلی بڑھی ہے۔یہ ایمان’ تقوی ‘ جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو رکھنے والی فوج ہے۔ اور اب اس میں بہت سارے فوجی افسر حافظ القرآن ہیں۔ الحمد للہ۔
کئی سال پہلے روزنامہ مشرق میں شائع شدہ اپنے ایک کالم میں پختونخوا کے سینئرترین عالم دین اور جمعیت علماء اسلام کے سرپرست اعلیٰ شیخ القرآن والحدیث مولانا حمد اللہ بابا جی آف ڈاگئی کا ایک قول لکھ چکا ہوں کہ پاکستانی فوج پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے اور پاکستان پر حملہ اسلام پر حملہ ہے۔ باباجی کے فرمان کی روشنی میں فریقین سے صبر و تحمل کی استدعا ہے۔اسٹیبلشمنٹ سے ملکی خدمت کے طریقہ کار پر اتفاق ہو سکتا ہے۔بس بات کرنے کا سلیقہ آنا چاہئے اور متبادل ٹھوس منصوبے اور دلائل کہ جمہوریت ہی میں ملک کی بقاء ہے۔
نئی عالمی جیو پولیٹیکل صورت حال کچھ یوں ہے۔ کہ بین الاقوامی سیاست پر منافقین قابض ہیں۔جن کو انسانیت’ انسانی اقدار اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اصولوں اور ضوابط سے کوئی دلچسپی نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل غزہ میں بتیس ہزار بے گناہ فلسطینی شہید کروا کر بھی مہذب بنے ہوے ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ چار اسلامی ممالک افغانستان’ عراق ‘ شام اور لیبیا تباہ کرکے بھی اسلامی دنیا کا ہمدرد بنا پھرتا ہے۔ بھارت اسلام دشمن پالیسیاں اپنا کر بھی عربوں سے اربوں ڈالر کھینچ رہا ہے۔ اس لئے ان منافقین سے بات کرنے کیلئے ہماری طرف سے بیدار مغز سویلینز کو ہی آگے کرنا ہوگا۔اور یہ فن ہر ملک کے سیاستدان ہی بہتر جانتے ہیں۔آمروں کو تو حکم ماننے اور حکم منوانے کی عادت ہوتی ہے۔جیسے جنرل مشرف ایک فون کال پر ہی ڈھیر ہو کر امریکہ کے سارے سات مطالبات مان گیا تھا۔حالانکہ خود امریکیوں کا خیال تھا کہ ذیادہ سے ذیادہ تین مطالبات مانے جائیں گے۔لیکن مشرف امریکہ سے کوئی شرط منوائے بغیر میدان میں کود گیا اور اپنے ستر یزار ہم وطن اور قیمتی سپاہی شہید کروا بیٹھا۔ جنرل ضیا ء نے بھی اسی اطاعت کا مظاہرہ کیا تھا۔نتیجہ نظریاتی طور پر منقسم اور اقتصادی طور پر دیوالیہ پاکستان ہمارے سامنے ہے۔ اور ہماری مدد سے افغانستان پر قابض گروہ الٹا ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ انہی خدمات کے بدلے ایک منتخب پارلیمنٹ پاکستان کے سارے قرضے معاف اور کشمیر کا قضیہ صاف کروا سکتی تھی۔لیکن افسوس ہماری ایسی قسمت کہاں۔ اب امریکہ کو ایران اور افغانستان میں اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور چینی ‘ روسی اثر و نفوذ کو روکنے کیلئے پاکستان میں ایک عقل سے عاری آمر کی دوبارہ ضرورت ہے۔ اللہ خیر کرے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال