برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟

گزشتہ روز متحدہ جہاد کونسل کشمیر کے سربراہ پیر سید صلاح الدین نے اسلام آباد کے جامع مسجد طوبی میں کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ایسے عجیب و غریب انکشافات کئے جسے سن کر انسانیت بھی شرماجائے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت مقبوض کشمیر میں ساری سیاسی قیادت یا تو پابند سلاسل ہے یا گھروں میں نظربند ہے۔اس میں پیر صلاح الدین کے دو بچے بھی شامل ہیں جو گزشتہ آٹھ سالوں سے تلہاڑ جیل میں بند ہیں۔ تحریک آزادی کے متوالوں کو جہاں جہاں بھی دیکھا جاتا ہے، اٹھایاجاتا ہے۔ دینی مدارس مقفل اور مسجدیں بند پڑی ہیں۔ پورے مقبوضہ کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف مودی سرکار عوام سے وعدے کررہا ہے کہ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھی قوت بازو سے آزاد کراکے اکھنڈ بھارت کا خواب پوارا کرکے رہے گا۔اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے وہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے نت نئے حربے استعمال کررہا ہے۔ ملک میں امن عامہ کی صورتحال کو خراب کرنے کیلئے بھارت بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی پشت پناہی بھی کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے عوام کو انکے حقوق دلانے کیلئے بین الاقوامی فورموں سے رجوع کرنا صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔ اس موقع پر متحدہ جہاد کونسل پاکستان کے سربراہ تاج علی شاہ نے کہا کہ اس ساری صورتحال پر پاکستانی سیاسی قیادت نے محض سیاسی بیانات دینے پر اکتفا کیا ہے اور کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا یا ہے۔
کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کی لرزہ خیز داستانیں لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل اس لئے ہوگئیں کہ پچھلے سال فلسطین کی شکل میں اس سے بڑا سانحہ رونماء ہوگیا۔ وہاں پر گزشتہ چھ مہینوں سے آگ و خون کا جو کھیل کھیلا گیا وہ کشمیر میں کھیلے جانے والے آگ و آہن کے کھیل سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس وقت فلسطین میں شہید ہونے والوں کی تعداد چونتیس ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ زخمیوں کی تعداد پچھتر ہزار تک جاپہنچی ہے۔ شہید ہونے والوں میں آٹھ ہزار سے زیادہ بچے شامل ہیں۔ تقریبا چالیس ہزار ٹن بارود اب تک نہتے فلسطینیوں پر برسایا جاچکا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ارض مقدس میں انسانی حقوق کی اس بدترین صورتحال پر نہ تو مہذب دنیا کی طرف سے کوئی آواز اٹھائی جارہی ہے اور نہ ہی نام نہاد انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے کوئی آواز آٹھ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہماری زلت اور خواری کا ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ ہم نے بحیثیت ایک امت کے قرانی تعلیمات کو بھلاکر اللہ سے مدد مانگنے کی بجائے امریکہ اور دنیا کے ترقی یافتہ مما لک کو اپنا آقا اور مشکل کشا مان لیا ہے۔اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جب کوئی قوم انکے بتائے ہوئے احکامات سے روگردانی کرتا ہے ہے تو وہ انہیں طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جب تم انکے احکامات سے روگردانی کروگے تو وہ تم پر نیچے سے اور اوپر سے عذاب نازل کرے گا اور تمہیں گروہوں میں تقسیم کرے گا۔ آج ہم پر بحیثیت ایک امت کے وہی زلت اور مسکنت تھونپی گئی ہے۔ہم پر نیچے سے لاوے پھوٹتے ہیں اور شدید ترین زلزلے آرہے ہیں۔ بدترین خشک سالی اسکی دوسری شکل ہے۔ اوپر سے بے وقت کی بارشیں ہوتی ہیں۔ جب فصلوں کو ضرورت ہوتی ہے تب ہوتی نہیں اور جب ضرورت نہیں ہوتی تب اتنی بارشیں ہوتی ہیں کہ سیلاب امڈآ تے ہیں جو اس غریب ملک کا اربوں ڈالر کا نقصان کرجاتے ہیں۔ تیسرے عذاب کی شکل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر یوں تقسیم کیا ہوا ہے کہ قومی اور ملی وحدت میں پرونے والے سارے کے سارے تار ہی ٹوٹ گئے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر دیکھا جائے تو سیاسی حریف ایک دوسرے کی کھال کھینچنے پہ اترآئے ہیں۔ آج اگر ہم نے بین الاقوامی برادری کی صف میں اپنا مقام بنانا ہے تو اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اس قرآن کو اپنا راہبر و راہنماء اور دستور مانیں۔ اور اسی کو اپنے لئے مشعل راہ اور سرچشمہ ہدایت مانیں ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال